ایف آئی آر درج کروانے کا نسخہ

ایف آئی آر، ایک سرکاری ادارے میں تقریباً پندرہ سال سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں، تجربے  کا کو  ئی ثانی نہیں۔

ایف آئی آر

اگر سرکاری  ملازم محکمہ میں ایمانداری سےکام کرے. بلکہ  دیسی الفاظ میں  کہا  جائے،بندے کے پُتروں کی طرح ملازمت کرے تو وہ  بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اور   نشوونما بھی پا سکتا ہے۔

حکومت پنجاب کے مختلف محکموں کے خلاف ہمیں شکایات موصول ہوتی ہیں. جن پر بعد از تفتیش مجاز اتھارٹی قواعد وضوابط کے مطابق  فیصلہ صادر فرماتی  ہے. تاکہ متاثرہ شخص کی داد رسی ہوسکے۔

بد قسمتی یا خوش قسمتی سے محکمہ پولیس کےخلاف موصول کردہ شکایات کی سماعت ہماری ذمہ واری ہے۔یقین جانیے ایک بھاری ذمہ واری۔ محکمہ پولیس کی حالت اور کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔خیر رب کی مدد سے بات اب تک نبھی ہوئی ہے۔(ایف آئی آر)

مستقبل میں موقع و محل دیکھ کر کسی روز محکمہ پولیس کے بارے میں ضرو ر اپنے خیالات کااظہار کریں گے. تاکہ ہمیں  اس پلیٹ فارم کے ذریعے گیان بانٹے کا موقع مل جائے .اور پڑھنے والوں  کے گیان میں اضافہ ممکن ہو سکے۔

چلیں اب مزید بات کیے آج کے موضوع کی چرچہ کرتے ہیں۔پولیس کے خلاف موصول ہونے والی شکایات میں عوام الناس کی سب سے بڑی دُہائی مقدمہ یا ایف آئی آر (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ) کا  اندراج نہ ہونا ہے۔

پولیس کتنے روز میں مقدمہ( ایف آئی آر )کی تفتیش مکمل کرنے کی پابند ہے؟

ضابطہ فوجداری (یعنی جرم سے متعلق  قانون) کے تحت متعلقہ  پولیس سترہ روز میں تفتیش مکمل کرنے کی پابند ہے. مگر افسوس کہ  اتناوقت تو  ہماری    پولیس مقدمہ کے اندراج میں خرچ کر دیتی ہے۔اگر آپ کے ساتھ کوئی وقوعہ مثلاً چوری، ڈکیتی،نوسر بازی سے متعلق پیش آتا ہے، تو ایک درخواست لکھیں.درخواست میں وقوعہ کی تاریخ، وقت، وقوعہ کی جگہ وغیر ہ کا تذکرہ ضرورکریں۔

موقف  ٹو دی پوائنٹ ہونا چاہیئے. اضافی معلومات جس کا خصوصاً وقوعے سے
کوئی تعلق نہیں تحریر  کرنے سے اجتناب کریں۔ گواہان کی مکمل تفصیلات  مثلاً تعدادا گواہان، نام، ایڈریس، موبائل نمبر وغیرہ درخواست میں تحریر کریں۔

ہر ایک علاقہ کا ایک تھانہ ہوتا ہے۔درخواست متعلقہ تھانہ جہاں وقوعہ پیش آیا وہاں جمع کروائیں.مقدمہ درج کرنے میں دیر/تاخیر ہرگز  نہ کریں۔جتنا جلدی مقدمہ درج ہوگا اُتنی آپ کے(ایف آئی آر )مقدمے کو تقویت ملے گی۔

تاخیر سے کروایا گیا مقدمہ شک و شبہات کو جنم دیتا  ہے۔تاخیر پولیس کی جانب سے سرزد ہوتی ہے. تواس امر کا آپ کے مقدمہ پر کوئی برا اثر نہ پڑے گا۔

اس بارے میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ حوالہ نمبر سن دو ہزار نو،  پی ایل ڈی ، صفحہ ایک ہزار اکسٹھ  کو بغور پڑھیں. جس میں تحریر ہے کہ اگر مقدمے کے اندراج میں  پولیس نے تاخیرکی ہے تو مقدمہ کے میرٹ  کو نقصان نہ ہوگا۔

شاطر ملزم کی چالیں اور احتیاطی تدابیر (ایف آئی آر)

بعض اوقات ملزم جُرم کا ارتکاب خود کرتا ہےاور خود تھانہ پہنچ کر پولیس کو گمراہ کرتا ہے. اوراس طرح مقدمے  کا اندراج کروا کر مدعی بن جاتا ہے۔حوالہ نمبرایم ایل ڈی,سن دو ہزارنو، صفحہ ننانوےکا مطالعہ کریں.  جس  میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ اگر ایک وقوعہ پر مقدمہ درج ہوچکا ہے. بعدازاں و ہ جھوٹا ثابت ہوتا ہے تو اُسی وقوعہ کی بابت ایک اور مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔

پولیس مقدمہ درج نہ کرے تو کیا کریں؟

اگر پولیس مقدمہ درج نہ کرے تو آ پ کے پاس دو راستے ہیں.پہلا راستہ پولیس کے کمپلینٹ ریڈریسل سیل میں درخواست دائر کریں۔یعنی متعلقہ ایس پی کو درخواست گزاریں جس میں اپنا مدعا تحر یر کریں.دوسرا راستہ: سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت سے رجوع کریں۔

سیشن جج کے پاس جسٹس آف پیس کی اتھارٹی ہوتی ہے۔جسٹس آف پیس کی اتھارٹی کا کیا مطلب ہے؟ ضابطہ فوجداری کے سیکشن پچیس کے تحت سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج کے پاس اختیار ہوتا ہے. جسٹس آف پیس متعلقہ پولیس کو مقدمہ درج کرنے یا تفتیش تبدیل کرنے وغیرہ کی ہدایت جاری کر سکتا ہے۔

لہٰذا سیکشن بائیس اے /بائیس بی ضابطہ فوجداری کے تحت درخواست گزاریں۔جسٹس آف پیس آپ کی درخواست پر پولیس سے رپورٹ طلب کرے گا۔

پولیس کمنٹس دائر کردے تو  ٹھیک. وگرنہ درخواست میں دائر کردہ مندرجات کی روشنی میں عدالت بذریعہ حکم پولیس کو مقدمہ درج کرنے کی ہدایت جاری کرے گی۔

اس کے باوجود پولیس مقدمہ درج نہ کرے
تو کیا کریں؟

دوبارہ اُسی عدالت کو   ضابطہ فوجداری کےسیکشن 22کے سب سیکشن6کے تحت درخواست گزاریں .جسے قانون کی لُغت میں کمپلائنس پٹیشن کے نام سے پُکارا جاتا ہے۔

دائر کردہ درخواست/کمپلائنس پٹیشن پر عدالت   کارروائی عمل میں لاتے ہوئے پولیس کو  سختی سے مقدمہ درج کرنے کی ہدایت جاری  کرسکتی ہے۔عدالت اگر مناسب گردانے  تو متعلقہ پولیس کو سماعت کے لئے بھی  طلب
کر سکتی ہے.

اگر جسٹس آف پیس سے بھی
انصاف نہ ملے تو کیا علاج ہے؟

عدالت عالیہ/ہائی کورٹ لاہور میں رٹ پٹیشن فائل کریں۔ہائی کورٹ لاہور آپ کی پٹیشن پر مناسب قانونی  کارروائی کرتے ہوئے پولیس کومقدمہ کے اندراج کا حکم دے سکتی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر آپ اصالتاً/خود پیش ہو کر پولیس کو درخواست دیتے ہیں.لیکن پولیس آپ کی درخواست پر کارروائی نہیں کرتی یا آپ کی درخواست وصول کرنے سےانکار کردیتی   ہے، تو کیا کریں؟

آپ اپنی درخواست بذریعہ کوریئر  پولیس کو ارسال کریں. اور ارسال کردہ درخواست کی ایک نقل محٰفوظ رکھیں. تاکہ   اُس  درخواست  کی نقل آپ مستقبل میں بطور ریفرنس استعمال کرسکیں.

جھوٹا مقدمہ درج  ہونے کی صورت میں کیا ریمڈی اختیار کریں؟

اگر مقدمہ  بعد از تفتیش جھوٹا ثابت ہوتا ہے تو ضابطہ فوجداری کے سیکشن 182کے تحت مقامی پولیس کارووائی عمل میں لاتی ہے.جس کے نتیجے  میں ملزم کو سزا  بھی ہو سکتی ہے۔

اگر پولیس از خود 182 کے تحت کارروائی نہ کرےتو کیا کریں؟ آپ متعلقہ ایس ایچ او ، ڈی ایس پی،ایس پی یا دیگر کسی پولیس افسر کو درخواست گزار سکتے ہیں۔

مقدمہ  میں پولیس والا نامز ملزم ہو اور مقدمہ پر اثر انداز ہو تو کیا کریں؟

اگر مقدمہ میں نامزد ملز م پولیس والاہے    توحتی الامکان  وہ مقدمہ پر اثرانداز ہو کر مقدمہ خراب کرنے کی کوشش کرے گا۔ایسی صورت میں آپ متعلقہ علاقہ مجسٹریٹ کو استغاثہ /پرائیویٹ کمپلینٹ دائر کریں۔

اس طرح مقدمہ کی تفتیش میں پولیس کی مداخلت ختم ہو جائے گی .اور آپ کو انصا ف ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

فرحان بٹ
(گزیٹڈ افسر حکومت پنجاب)

(گھریلو تشدد) آئی جی اسلام آباد کے احکامات پر گھریلو تشدد کے خلاف سخت ایکشن –

لاھور زیارتی کیس، نشتر کالونی 8 سالہ معصوم بچی سے زیادتی کا ملزم گرفتار۔

اپنا تبصرہ بھیجیں