ابلیس (شیطان) تو قید میں تھا پر و ہ کون تھا؟

میرے اندر اُس ڈرامہ سیریل کو لے کر بے حد اضطراب پیدا ہوگیا۔ حالانکہ میں نے منصوبہ بندی کر رکھی تھی کہ آخری عشرے میں جتنا ہوسکے گا عبادت کرونگا۔میں رمضان المبارک میں جہاں گیا جس سے ملا قی ہوا تقریباً سبھی نے اُس ڈرامہ سیریل کے بارے میں بات کی اور مجھے وہ ڈرامہ دیکھنے کے لئے پُش کیا۔
دنیا کا سب سے مشکل کام کیا ہے؟ اگر مجھ سے پوچھیں تو وہ خود پر یعنی اپنی نفس پر قابو پانا ہے۔ خود کو قابو میں رکھنا۔ہر گز حد سے نہ بڑھنا۔ آخر ایسے تو نہیں کہا گیا کہ جس نے اپنی نفس کو پہچان لیا اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔سیدھے راستے پر چلتے ہوئے شیاطین کے لشکرہمارے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال نماز پڑھنے اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے دوران نہ چاہ کر بھی عجیب و غریب اُلٹے سیدھے خیالات کا ذہن میں آنا ہے۔اکثر مذکور امور کے دوران اُوٹ پٹانگ سوچوں اور خیالوں کے انبار لگ جاتے ہیں۔ہم چاہ کر بھی دھیان نہیں کر پاتے۔اور جب نماز اور قرآن پاک کی تلاوت سے فارغ ہوتے ہیں تو ہوش آتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ  ہمیں جو خیال آتا ہے، جو بات ہمارے دل میں آتی ہے,شیطان اُس سے بھی باخبر ہے ۔وضاحت کے لئے شیطان اور فرشتے کے درمیان ایک مکالمہ پیش خدمت ہے

شیطان satan shaitan

شیطان اور فرشتے کے درمیان ایک مکالمہ

فرشتہ
شیطان۔ٹھیک ٹھاک، تم سناؤ؟
فرشتہ۔شُکر ہے مالک کا جس نے اتھارٹی بخشی۔
شیطان۔ایسی کیا اتھارٹی دے دی تمہیں، ہم بھی تو جانیں۔
فرشتہ۔بھائی میں انسان کے اندر داخل ہو جاتا  ہوں اور ہر جگہ کی سیر کرتا ہوں۔
شیطان۔اچھا جی! جناب کہاں کہاں سیر کرتے ہیں، ذرا واضح کریں۔
فرشتہ۔تقریباً انسان کے ہر اعضاء تک میر ی رسائی ہے
شیطان۔دل میں جانے کی اجازت ہے؟
فرشتہ۔نہیں، مالک نے اتنی اتھارٹی بھی نہیں دی۔
شیطان۔ہنستے ہوئے،جناب میرے پاس انسان کے دل میں داخل ہونے کا لائسنس بھی ہے، میں اُس کے دل میں جھانک کر معلوم کرلیتا ہوں کہ وہاں کیا چل رہا ہے۔
بھتیجے کی جانب سے آغازتشہیر
فرحان چاچو آپ یقین مانیں ڈرامے کا پہلے ہی بڑا مزاح آرہا تھا اور اب مانی کو بھی متعارف کروایا گیا ہے تو ڈرامہ مزید دلچسپ ہوگیا ہے، میرے بھتیجے، نقیب نے ایک روز مجھ سے گھر میں ایک نشت کے دوران کہا۔ چھوڑو رمضان چل رہا ہے بس روزے عبادت تسبیح، نتھنگ ایلز، میں نے جواب دیا۔
کولیگ صاحب بھی میدان میں اُتر آئے
بٹ صاحب یار او ڈرامہ بہت چل دا پیا ہے، تسی ویخدے پئے ہو کہ نئیں، دفتر کے ایک کولیگ ندیم نے مجھ سے پوچھا۔نہیں بھائی روزے ہیں نہ، موقع نہیں مل رہا، دیکھوں گا اگر وقت ملا تو، میں نے جواب دیا۔

زوجہ محترمہ کی جانب سے ڈرامہ سیریل کی تعریف

اُ ن دونوں کی جوڑی بہت ہٹ ہوگئی ہے، دونوں ساتھ میں بہت اچھے لگ رہے ہیں، دیکھ لینا وہ ضرور مزید ڈراموں میں ایک ساتھ کام کریں گے، ایک دن زوجہ محترمہ نے مجھے دوران گفتگو بتایا ۔تھوڑی دیر بعد زوجہ محترمہ زور زور سے قہقہے لگا کر ہنسنے لگی،وجہ پوچھی تو جواب ملا، پلیز ڈسٹرب نہ کریں میں وہی ڈرامہ دیکھ رہی ہوں۔
ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران ایان (کزن) کی جانب سے سفارش
آپ دیکھ رہے ہو ڈرامہ، میرے کزن ایان نے مجھ سے ٹیلی فون کال کے دوران پوچھا، میں نے کہا کون سا ڈرامہ، اُس نے نام بتایا۔میں نے کہا ہاں وہ والا، ہر بندہ اُسی کے بارے میں بات کر رہا ہے۔فرحان بھائی وہ کون نہیں دیکھ رہا، اکبر بھائی(ہمارا کزن)بھی شام کو  فیملی کے ساتھ دیکھتے ہیں اور قہقہے  لگا لگا کر  ہنستے ہیں، ایان نے وضاحت کی ۔

اتنی سفارشیں، ہتھیار نہ ڈالتا تو کیا کرتا

اسی طرح کئی جاننے والوں نے اُس ڈرامہ سیریل کی تعریف کی اور اُسے دیکھنے کا مشورہ دیا۔تقریباً بیسویں روزے تک میں جہاں گیا ، جس سے ملا ، میرے کانوں کو اُس ڈرامے کے بارے تعریفوں سے بھرے کلمات سُننے کو ملے ۔میرے اندر اُس ڈرامہ سیریل کو لے کر بے حد اضطراب پیدا ہوگیا۔

حالانکہ میں نے منصوبہ بندی کر رکھی تھی کہ آخری عشرے میں جتنا ہوسکے گا اُتنی عبادت کرونگا۔میں رمضان المبارک میں جہاں گیا جس سے ملا قی ہوا تقریباً سبھی نے اُس ڈرامہ سیریل کے بارے میں بات کی اور مجھے وہ ڈرامہ دیکھنے کے لئے پُش کیا۔میں اکثر سوچتا کہ ایسی کیا چیز ہے اُس ڈرامے میں جو ہر بندہ اُسی کا تذکرہ کررہا ہے۔

سوچا کہ رمضان المبارک گزرجائے،اُس کے بعد یو ٹیوب پر دیکھ لونگا، ایسی کیا جلد ی ہے۔ہر ممکن کوشش کی کہ وہ ڈرامہ سیریل نہ دیکھوں مگر اپنے آپ کو روک نہ پایا اور پہلی تاق رات یعنی اکیسویں روزے سے وہ ڈرامہ سیریل دیکھنا شروع کی اورعید والے دن تیس اقساط خیرسے مکمل کرکے دم بھرا۔پھر اندازہ ہوا کہ آخرہر شخص کیوں اُس ڈرامے کا ذکر کر رہا تھا۔

آ پ یقین جانیے کہ اُس  ڈرامہ میں گھولا گیا  مزاح  دیکھ کرمیری ہنس ہنس کے وکھیاں دوری ہوگئیں۔تھوڑا ملال  بھی تھا کہ رمضان کے مہینے میں دیکھنا نہیں چاہیئے تھا، اچھی خاصی عبادت و  ریا ضت چل رہی تھی پھر جب  ذہن میں آیا کہ اسلام میں تفریح جائز ہے اور میں کونسا فرائض سےغافل ہوا تھا، تھوڑا حوصلہ ملا اور تسلی ہوئی اور دل نے کہا، آل اِز ویل۔

جی ہاں دوستو میں ڈرامہ سیریل چپکے چپکے کی بات کررہا ہوں جسے دانش نواز نے ڈائریکٹ کیا اور صائمہ اکرم چوہدری نے لکھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ڈرامہ  کسی نےماہ رمضان  میں مس کیا ہو۔ ڈرامہ خوبیوں جیسا کہ  مضبوط سکرپٹ،  اچھی اداکاریوں اورمزاح سے بھر پور تھا۔سب نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

ڈرامہ سیریل نے پورے رمضان المبارک میں قارئین کو بنا ئے رکھا۔مجھے ذاتی طور پر علی سفینہ کا کام بہت پسند آیا۔ اُس کا ڈائیلاگ گھر دا پیر تے چلہہ دا وٹا تو ہر زبان زد عام تھا جو ایک سرائیکی محاورہ ہے جس کے معنی ہیں گھر کی مرغی دال برابر۔

رمضان المبارک کے مہینے میں میرے روبرو متذکرہ بالا ڈرامہ سیریل کا عوام الناس نے اس قدر ذکرکیا کہ مجھے آخر کار وہ ڈرامہ مجبوراً دیکھنا ہی پڑا۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ کہیں عوام کے ذریعے مجھے اپنے ہدف سے ہٹانے کے لئے یہ ابلیس کی جانب سے چلی گئی چال تو نہیں تھی، مگر ابلیس تو قید میں تھا پر وہ کون تھا ؟
فرحان بٹ
میں اور وہ ( سچا واقعہ)
کنکشن بننا چاہیئے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں