روس کا ہدف یوکرین ہی کیوں؟یوکرین دراصل ایک ایسا ملک ہے جس کی سرحدیں یورپی یونین اور روس دونوں سے ملتی ہیں۔سویت یونین کا چونکہ روس حصہ رہا ہے جس کی بناء پر اس کے روس کے ساتھ گہرے ثقافتی اور سماجی تعلقات ہیں اور اسی وجہ سے اس علاقے میں روسی زبان وسیع پیمانے پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔لیکن 2014ء میں روس کے اس پر حملہ ہونے کی بناء پر دونوں ملکوں کے تعلقات کافی کشیدہ ہو چکے ہیں۔
ولایمیر پوتن کے مطابق یوکرین بس مغرب کی ایک کٹھ پتلی ہے اور کبھی بھی ایک باقاعدہ ملک نہیں بن پایا ہے۔چونکہ یورپ سے روس کی نہیں بنتی اور اس کی بناء پر روس یورپی اداروں کی مخالفت کرتا ہے جبکہ یوکرین اس کوشش میں ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت جلد از جلد ہو۔یورپی یونین کے اداروں میں امریکہ کی سربراہی میں قائم 30ملکوں کا فوجی اتحاد نیٹو اور یورپی یونین دونوں شامل ہیں۔
روس ایک عرصہ سے یہ مطالبہ کرتا آرہا ہے کہ مغربی ممالک یہ ضمانت دیں کہ یوکرین کو نیٹو کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔لیکن نہ تو مغربی ممالک ہی روس کو یہ ضمانت دینے کی بات کر رہے ہیں اور نہ ہی یوکرین نیٹو میں شامل نہ ہونے کا کہہ رہا ہے۔
اس لئے روس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ حل ہی اپنایاجائے۔یوکرین نے حال ہی میں جنگ لگنے کی بعد اس میں شدت آنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے یورپی یونین میں شمولیت کی باضابطہ درخواست دی جو کہ یوکرینی میڈیا کے مطابق یہ درخواست منظور کر لی گئی ہے او رشمولیت کے لئے خصوصی طریقہ کار کی اجازت دے دی ہے۔
خبررساں ادارے کے مطابق یوکرین کے صدر ولودومیرزیلینسکی نے یورپی پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں ورچوئل خطاب کیا ہے۔ان کے اس خطاب کے بعد یورپی پارلیمنٹ کے تمام ارکان نے روس کے خلاف اس طرح ڈٹ جانے پرزیلینسکی کے لئے کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔