بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام مشرف پر ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، راؤ انوار کا دعویٰ
کراچی کے سابق ہائی پروفائل لیکن بدنام زمانہ پولیس افسر راؤ انوار نے ایک غیر معمولی انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر دانستہ طور پر دستخط نہیں کیے تھے۔
انوار نے کہا کہ انہوں نے رپورٹ اس لیے نہیں لکھی کیونکہ اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک کی جانب سے ان پر سابق صدر اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو ملوث کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ سابق پولیس افسر کا کہنا ہے کہ سابق صدر کا بیان ریکارڈ کیے بغیر یا ان سے پوچھ گچھ کیے بغیر پرویز مشرف کا نام رپورٹ میں شامل کیا گیا۔
“میں نے [جے آئی ٹی رپورٹ] پر دستخط نہیں کیے کیونکہ ملک نے مجھ پر مشرف پر الزام لگانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا،” انوار نے فون پر نجی چینل کو بتایا، “میں نے ثبوت مانگا تھا اور جو ان کے پاس موجود نہیں تھا۔”
راؤ انوار کو سابق صدر آصف علی زرداری کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔
پولیس اہلکار نے یہ بھی سوال کیا کہ سابق وزیر داخلہ نے سابق وزیر اعظم کے دو بلیک بیری فون تقریباً دو سال تک اپنے پاس کیوں رکھے۔
ملک حال ہی میں کوویڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد انتقال کر گئے، اور انہوں نے نہ تو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نہ ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے پاس اپنا کوی بیان ریکارڈ کرایا۔
انور کا دعویٰ ہے کہ”ایک بار، میں زرداری سے ملنے گیا اور ان سے بلیک بیری فونز کے بارے میں پوچھا، انہوں نے مجھے کہا جاو اور ملک سے پوچھو،” ، “تو پھر میں ملک کے پاس گیا۔ پہلے وزیر نے انکار کیا کہ ان کے پاس فون ہیں اور پھر غصے میں آگئے کہ میں زرداری کے پاس کیوں گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان فونز سے بھٹو کی موت کی تحقیقات میں مدد مل سکتی تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ بھٹو نے پولیس کو لکھے گئے خط میں کیوں لکھا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو پرویز مشرف، چوہدری پرویز الٰہی اور بریگیڈئیر اعجاز شاہ ذمہ دار ہوں گے، انور نے کہا کہ دعوے کی تصدیق کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
نجی ٹی وی نے ان سے پوچھا کہ وہ اب یہ انکشافات کیوں کر رہے ہیں تو سابق پولیس افسر نے کہا کہ وہ مشرف کی بگڑتی ہوئی صحت کے بارے میں سن کر کچھ “حقائق آن ریکارڈ” لانا چاہتے ہیں۔
ایف آئی اے نے مسلم لیگ (ق) کے مونس الٰہی کے خلاف 72 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کر لیا۔