معاشی استحصال میں تڑپتا مزدور، آج کے مزدور کا دُکھ .

معاشی استحصال میں تڑپتا مزدور آج کے مزدور کا دُکھ .ایک غریب مزدورننگے بدن کڑکتی دھوپ میں ننگے پاؤں جلتی ریت پر سارے دن کی انتھک محنت کے بعد چند روپے کماتا ہے۔یہ چند روپے جو اُس کے خون پسینے کے مرہونِ منت تھے۔بجلی کے بل،گیس کے بل اوربیسیوں ٹیکسوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔

اس بیچارے غریب کے پاس دوہی راستے ہیں۔ایک تو پیٹ کی آگ سے نجات حاصل کرنے کیلئے خودکشی کرکے اپنے آپ کو ہمیشہ کیلئے جہنم کی آگ کے سپرد کردے۔

دوسرا اگر وہ جہنم! کی آگ کی نسبت پیٹ کی آگ کو برداشت کرنا چاہتا ہو تو اس آگ کو بجھانے کیلئے اس کے پاس اپنے خون کے سوا کچھ نہیں بچتا۔

یہ غریب جب اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے اپنے خون کے عوض روٹی کے چند نوالے خریدتا ہے تو وہ اس سوال کے جواب کا پورا حق رکھتا ہے۔

میں خون بیچ کے روٹی خرید لایا ہوں
فقیہِ شہر بتا یہ حلال ہے کہ نہیں

اے فتویٰ دینے والے! تیرا یہ فتویٰ ہے کہ کسی کو دکھ دے کر کسی کا حق مار کر کسی کو نقصان پہنچا کر،کسی کی جان سے کھیل کر،خون کی ہولی کھیل کر یا کسی بھی ناجائز طریقہ سے کمائی دولت حرام ہے۔

لیکن تیرا یہ فتویٰ بلکہ ہر فتویٰ صرف غریب پر ہی لاگو ہوتا ہے۔ایک مزدور جو سارے دن کی سخت محنت کے بعد چند روپے کمانے کے قابل ہوجاتا ہے توان روپوں کو نگلنے کیلئے مختلف بلوں اور ٹیکسوں کی صورت میں اژدھے تیار کھڑے ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس وہ لوگ بھی ہیں جو کوئی کام کرنا نہیں جانتے۔جنہوں نے کبھی بچپن کی حدود پار نہیں کیں۔لیکن اس کے باوجود دن رات عیش وعشرت میں گزارتے ہیں۔ دولت ہی سے کھیلتے ہیں اوراسی کو پاؤں تلے روندتے ہیں۔روپے پیسے کی اتنی فراوانی ہوتی ہے کہ وہ نوٹوں کی قدروقیمت کو بھول جاتے ہیں۔

اے مفتی!کیا تیرا علم غریب اورامیر کے درمیان اتنے بڑے فرق کو نہیں پہچان سکتا۔ کیا تو نے ان بلوں اورٹیکسوں جیسے اژدھوں کے پیٹ چاک کرکے نہیں دیکھا کہ ان کے معدے میں کیسی کیسی شکلیں روپے کی ہوس میں چپکی بیٹھی ہیں۔

اے فقیہہ! تیرا علم یہاں ہار کیوں جاتا ہے۔کہیں تیری آنکھیں بھی دولت دیکھ کر اندھی تو نہیں ہوجاتیں؟کیا تو بھی دولت پاکر سچ کہنے والی اپنی زبان کاٹ دیتا ہے یا پھر تیرا علم تجھے امیر اورغریب کی تفریق سکھاتا ہے۔امیر اورغریب کیلئے علیحدہ قانون بتاتا ہے۔

اے فتویٰ دینے والے چاہے جو بھی وجہ ہے تیرے اس فتوے کی لیکن اتنا تو صاف ظاہر ہے کہ تیرا علم ایک غریب کی غریبی کو اس کا گناہ بتاتا ہے اوراسی گناہ کے بدلے اُس کو پیٹ کی آگ برداشت کرنا پڑتی ہے۔جھوٹے مقدموں کیلئے عدالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جاگیرداری صرف جاگیرداروں کا حق ہے۔

”روپے پیسے پر حق ہے تو صرف اُن کا جن کے ہاتھ میں طاقت کا ڈنڈا ہے”

اے مفتی! غریب جو کچھ کرتا ہے۔تیرا علم اس کو گناہ بتاتا ہے۔ وہ محنت کرتا ہے،روپیہ کماتا ہے،لیکن اس خون پسینے سے کمائی دولت پر اس کا کوئی حق نہیں ہوتا۔اس کے پاس پیٹ کی آگ بجھانے کا ایک ہی راستہ تھا جو وہ اختیار کرچکا ہے اورتجھ سے سوال کرتا ہے۔

اے فتویٰ دینے والے!اب یہ بھی بتا دے کہ میں اپنا خون بیچ کر جو روٹی خرید کر لایا ہوں تیرے علم کے مطابق یہ حلال ہے یا حرام۔ اے فقیہہِ شہر!مجھے اُمید ہے کہ تم جتنے بھی دولت کے نشے میں اندھے ہوچکے ہوایک شاعر کی دردناک نظم غریبوں کے جینے کا حق تو رکھ ہی لے گی چاہے اس کی قیمت خون ہی کیوں نہ ہو۔(معاشی استحصال)

نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جب بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریب کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں اُبلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پہ میرا قابو ہی نہیں رہتا
…………………………………
معاشی استحصال میں تڑپتا مزدور آج کے مزدور کا
دُکھ .
ڈاکٹر سجاد
سینیر ایڈیٹر

سعودی وزیر داخلہ کی پاکستان آمد ،قیدیوں کی واپسی اہم ایجنڈا

اپنا تبصرہ بھیجیں