روزہ کب فرض ہوا ؟

روزہ کب فرض ہوا ؟
روزہ کب فرض ہوا یہ سوال اکثر عوام الناس پوچھتے ہیں۔ کیونکہ عوام کی اکثریت اس سے ناواقف ہے کہ جو روزہ اسلام کا اہم رکن ہے وہ روزہ کب فرض ہوا۔

روزے کو دین میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو اس سوال کا جواب معلوم ہونا چاہیے۔

روزہ نبی کریم کی امت پر تب فرض ہوا جب ﷲ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ﷲ تعالی نے باقی امتوں کی طرح آپ پر بھی روزے فرض کیے ہیں۔ تاکہ آپ پرہیزگار بن سکیں۔ روزہ دو ہجری کو فرض ہوا۔ یعنی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو اس کے دوسرے سال روزہ فرض ہوا۔

اس بارے میں کچھ محدثین کا اختلاف بھی ہے۔ کچھ محدثین کہتے ہیں کہ یہ آیت پہلے نازل ہوئی تھی۔ لیکن روزے کے احکام بہت پہلے قرآن مجید میں ارشاد ہوئے تھے۔

اس لیے بعض علماء کے مطابق روزہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں ہی فرض ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے تفصیلی احکام نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے دو ہجری میں بیان فرمائے اور دو ہجری کے بعد روزہ فرض قرار دے دیا گیا۔

قابل زکر بات یہ بھی ہے کہ ﷲ تعالی نے جہاں ہمیں روزہ رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے وہیں یہ بھی بتایا ہے کہ روزہ پچھلی امتوں پر بھی فرض قرار دیا گیا۔

عیسائی آج بھی روزہ رکھتے ہیں۔ بعض محدثین بیان کرتے ہیں کہ پچھلی امتوں کے روزے رکھنے کا انداز ہم سے کافی الگ تھا اور انتہائی مشکل تھا۔

ان پر زیادہ روزے فرض کیے گئے تھے۔ جیسا کہ عیسائیوں پر چالیس روزے فرض تھے اور وہ آج بھی چالیس روزے رکھتے ہیں۔ پچھلی امتوں میں جس وقت کو روزہ رکھا جاتا تھا۔ پھر اگلے دن اسی وقت کو ہی افطار کیا جاتا۔

یعنی اگر ہم پچھلی امت میں ہوتے تو ہم کو صبح کے وقت فجر سے پہلے روزہ رکھنا پڑتا اور اگلے دن فجر کو روہ افطار کرنا پڑتا۔ اس کے علاوہ ان لوگوں میں صرف کھانے پینے کا روزہ نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ لوگ دیگر بہت سی چیزوں کا بھی روزہ رکھتے تھے۔ جن میں ایک یہ بھی تھا کہ ان کو بات کرنے سے بھی پرہیز کرنا پڑتا تھا۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ روزہ کب فرض ہوا تو اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ روزہ دو ہجری کو فرض ہوا۔

وہ واحد پاکستانی جس نے حکومت سے درخواست کی کہ اس کی تنخواہ کم کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں