لمحہ موجود کی طاقت

لمحہ موجود کی طاقت:

مشہور ومعروف مصنف اور موٹی ویشنل سپیکر ایکھارٹ ٹولے نے اُنیس سو ستانوے میں دی پاور آف ناؤ کے نام سے ایک حیرت انگیز کتا ب لکھی تھی جس کا مرکزی خیال   یہ ہے کہ مستقبل اور ماضی کچھی بھی نہیں اور جو کچھ بھی ہے وہ لمحہ موجود ہے جس میں آپ جی رہے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ کے ساتھ ماضی میں کوئی حادثہ پیش آیا تھا جس کا دُکھ آپ محسوس کر رہے ہیں تو وہ دُکھ بھی آپ ماضی میں نہیں بلکہ لمحہ موجود میں محسوس کر رہے ہیں۔جسے ہم ماضی کہتے ہیں وہ بھی اصل میں لمحہ موجود کی ہی ایک کولیکشن ہے یعنی آپ کا ماضی موجودہ لمحات سےمل کے بنا ہے اور آپ کا مستقبل بھی موجودہ لمحات سے مل کے بنے گا۔

جو بھی ہمارے ساتھ مستقبل میں پیش آئے گا وہ بھی اصل میں لمحہ موجود ہی ہوگا۔وہ بھی موجودہ لمحہ ہوگا جو ابھی آپ کو پیش آنا ہے۔یہ کتاب لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدل چکی ہے اور اگر آپ بھی اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں اور اس کتا ب سےاستفادہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس بلا گ میں میرے ساتھ بنے رہیں۔

مستقبل اور ماضی کو جان بوجھ کر سکون برباد کرنے کی اجازت دینا

مصنف کا کہنا ہے کہ ہماری نوے فیصد تکلیف اور سٹریس اس لئے ہے کہ ہم جان بوجھ کر اپنے اور مستقبل کواپنا ذہنی سکون برباد کرنے کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک ماضی اور مستقبل کوئی وجود نہیں رکھتے۔

اس بابت مصنف کا کہنا ہے کہ اگر آپ لمحہ حال میں موجود ہیں تو ماضی کے بُرے اثرات آپ کی زندگی کو خراب نہیں کریں گے۔ماضی کے بُرے اثرات آپ کو اُسی صورت میں اذیت دیں گے جب آپ لمحہ حال میں موجود نہ ہونگے۔

لمحہ موجود میں رہنے سے درپیش مسائل نمٹانا آسان

مصنف مزید تحریر کرتے ہیں کہ اگر آپ لمحہ موجود میں رہتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں تو آپ درپیش مسائل کو بہترانداز میں حل کر سکتے ہیں اور مصیبتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ کو دفتر سے کوئی پراجیکٹ ملا جسے پورے کرنے میں آپ سے تاخیر سر زد ہو گئی تو آپ مستقبل میں باس کے ہاتھوں ہونی والی بے عزتی اورکمپنی میں اپنی پوزیشن خراب ہونے کا سوچ کر خود کو مزید پریشان کریں گے۔

ا س کے بر عکس اگر آپ لمحہ حال میں رہتے ہوئے اپنے کام پر دھیان دیں گے، فوکس کریں گے تو اس عمل سے بہترین نتائج حاصل کرنے کے امکان بڑھ جائیں گے۔

اس بابت مصنف نے جو تحریر پیش کی ہے وہ درج ذیل ہے-

زندگی کا راز یہ ہے کہ آپ موت سے پہلے مر جائیں اور بعد میں پتا چلے کے موت نام جیسی کوئی چیز ہی وجود نہیں رکھتی تھی۔تحریر پہ غور کریں تو موت سے پہلے مرنے سے مصنف کا مطلب ہے کہ اگر آپ مستقبل کے بارے میں پریشان نہ ہوں تو آخر میں آپ کو پتہ چلے گا کہ مستقبل میں کوئی پریشانی ہی نہیں تھی۔

یعنی آپ مستقبل کے منفی اثرات کے بارے میں پریشان ہو کر کوئی کام نہ کریں گے تو آپ ویسے ہی کامیاب ہوچکے ہونگے۔ موت جیسی کوئی چیز نہیں ہوگی سے مراد کہ کوئی پریشانی بھی نہیں ہوگی۔

قابو اور بس سے باہر چیزوں کے بارے میں پریشان ہونا-

اس سے مُراد یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی شکل اچھی نہ ہونے کی وجہ سے خوش نہیں رہتے یا اپنی شکل پسند نہیں کرتے اورخواہش کرتے رہتے ہیں کہ کاش وہ خوبصورت ہوتے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ چہرے کے خدوخال پر اُن کا کوئی زور نہیں ہے۔

دوسری مثال ماضی یا مستقبل پر قابو پانے کی فکر میں رہناجبکہ حقیقت یہ ہے آپ چاہ کر بھی اپنے ماضی کو بدل نہیں سکتےاور اسی طرح مستقبل پر بھی آپ کا کوئی بس نہیں ہے۔ماضی گزر چکا ہے اور مستقبل ابھی آیا نہیں لہٰذا آپ کے ہاتھ میں صرف لمحہ موجود باقی ہے۔

اپنے رویے کے ذریعے اپنی اذیت پر قابوپانا-

ہماری اذیت کی وجہ بیرونی یا دوسرے عوامل ہیں لیکن اذیت اصل میں ہمارے اندر سے اُٹھتی ہے جیسے اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ کچھ بُرا کرتاہے تو آپ کا ذہن اُس کے جواب میں ایک رویہ پیش کر تا ہے .

آپ کا ذہن کسی انسان کے برےرویے کے جواب میں جورویہ پیش کر تا ہے وہ اصل میں آپ کی اذیت کا باعث بنتا ہے۔اس کے بر عکس اگر آپ کسی کےبُرے رویے کو دل پر نہیں لیتے اور اُلٹا اُ س پر لعنت بھیج دیتے ہیں تو آپ اس مخصوص معاملے میں اپنی اذیت پر قابو پا سکتےہیں۔

نا گہانی اذیت پر قابو پانے کی تجویز:

مثال کے طور پر آپ کے کسی قریبی رشتہ دار یا عزیر کی موت واقع ہو جانا۔چونکہ موت بر حق ہے اور سب کو ایک دن آنی ہےلہٰذا اس قسم کی اذیت سے بچنا تقریباً نہ ممکن ہے۔مصنف ا س نوعیت کی اذیت کو قبول کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ یہ زندگی کا حصہ ہے جس پر آپ کا کوئی بس نہیں۔

اس قسم کے وا قعات کو قبول کرنے سے مرا د ہے کہ آپ دل میں نہ سوچیں
کہ کاش ایسا نہ ہوتایا کاش فلاں واقعہ پیش نہ آتا یا کاش میں بھی خوبصورت دکھتا ۔”مصنف لکھاریوں اور پینٹرز کی مثال دیتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں کہ آرٹسٹ اپنی نئی تخلیق کا آغاز لمحہ موجود سے کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کسی لکھاری نے کوئی ناول لکھا ہے تو اُس کی ساری کہانی پہلے سے اُ س کے پاس موجو د نہ تھی۔اُس نےکہانی لکھنے کا آغاز کسی ایک نقطے سے کیا تھا اور ساتھ ساتھ نئے کردار بھی تخلیق ہوتے گئے، وِلن کے بارے میں بھی لکھاری نے لکھا اور اسی طرح سارا ناول وجود میں آیا۔

اسی طرح کچھ مصنف پہلے وِلن تخلیق کرتے ہیں اور پھر اسی لحاض سے ہیرو
ہیروئن یا باقی کرداروں کے گر د کہانی بنا تے ہیں لیکن یہ آرٹسٹ شروعات ایک پوائنٹ یا ایک لمحہ موجود سے کرتے ہیں کیونکہ سارے ناول کا ایک ہی بار ذہن میں سماں جانا ممکن نہیں۔

لہٰذا مصنف ضرورت سے زیادہ سوچنے کو غیر موضوع قرار دیتے ہوئے تجویز پیش کرتے ہیں کہ لمحہ موجود کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے کام کا آغازکریں جس کے بعد راستے   خود نکلتے جائیں گے۔

اپنے رشتے جیسے کے اپنی بیوی یا خاوند کو اُن کی ماضی کی غلطیوں یا کوتاہیوں کی بنیاد پر نہ پرکھیں بلکہ اُنھیں لمحہ موجود میں رہتےہوئے پرکھیں۔اس طرح آپ اُن کے ساتھ مضبوط اور سکون دینے والا رشتہ قائم کر سکتے ہیں۔

تاہم مصنف کا کہنا ہے کہ لمحہ موجود کی طاقت کو اگر صرف ایک فریق استعمال کرے تو اس طرح زیادہ مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔  لہٰذا رشتوں میں لمحہ موجود کی
طاقت کو دونوں فریقین استعمال کریں تو سود مند نتائج رونما ہونگے وگرنہ زیادہ مشکل حالات پیدا ہونگے۔

تجزیہ

دی پاور آف ناؤ درحقیقت ایک کرشماتی کتاب ہے جو تقریبا ًاڑھائی سو صفحات پر مشتمل ہے جسے قارئین کو ضرور پڑھنا چاہیئے۔اس کتاب میں مصنف نے بڑے موثر مگر آسان الفاظ اور انداز میں لمحہ موجود کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے .

ماضی کی تلخ یادیں اورمستقبل کے خوف سے نجات پا کر لمحہ موجود میں رہتے ہوئے کامیاب زندگی گزارنے کے سنہرے اصول بیان کیئے ہیں جن کی
مدد سے ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔

میں نے  بھی اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے اوراس میں بیان کردہ اصولوں پر عمل کرتے ہوئے لمحہ موجود میں دیر پا رہنے کی مشق کی ہے  جس سے میری زندگی میں  مختلف قسم کی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں اور میں گاہے بگاہے لمحہ موجود میں رہنے کی مشق کرتارہتا ہوں۔

یہ مشق اتنی آسان نہیں کیونکہ ماضی کی تلخ یادیں اور مستقبل کا متوقع خوف آپ کا اتنا آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتےتاہم  مستقل اور متواتر مشق کرنے سے آپ زیادہ سے زیادہ لمحہ موجود میں رہنا سیکھ سکتے ہیں. جس کے بعد آپ اپنی زندگی کے ہرشعبے  میں بہتری کی طرف راغب ہونگے اور جسمانی، ذہنی اور روحانی سکون محسوس کریں گے۔

ماضی اور مستقبل صرف دماغ کی گتھیاں ہیں، میں تو اب ﴿لمحہ موجود﴾ میں ہوں۔

فرحان بٹ( گزیٹڈ افسر حکومت پنجاب)

ابلیس تو قید میں تھا پر و ہ کون تھا؟
وفاقی بجٹ یا ایٹم بم؟تحریر ہماری فیصلہ آپ کا

اپنا تبصرہ بھیجیں