تعارف
خاموشی کی کہانی: آج کا موضوع سخن /خاموشی ہے.سب سے پہلے تو خاموشی میں کئی طرح کے احساسات موجود ہوتے ہیں. ہم اُن احساسات کو روز مرہ کی مصروف اور ہنگامہ خیز زندگی میں محسوس نہیں کر سکتے.
دوسرا یہ کہ خاموشی اور سکوت کی دنیا اس شور شرابے اور ذہنی تناو والے ماحول سے یکسر مختلف ہے. اس میں اس قدرسکون ،عجیب سی راحت اور اطمینان چھپا ہوا ہے جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے .اس کا اظہار زبان سے کرنا ناممکن ہے. حتی کہ اسے احاطہء تحریر میں لانامحال ہے۔
خاموشی بارے ذاتی مشاہدہ
اس کے علاوہ شورو غوغا اور چیخم چنگھاڑ کا ماحول آدمی کے اندر بے چینی پیدا کر دیتا ہے. غصے کی کیفیت میں اضافہ ہو جاتا ہے.یہاں تک کہ آدمی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور قوت بھی وقتی طور پر دب جاتی ہے.
لہذا ،وہ گھبراہٹ اور ذہنی اذیت کا شکار ہو کر بوکھلا سا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں خاموشی اور تنہائی ایک نعمتِ خداوندی ہے. اس کی قدروقیمت اس وقت معلوم ہوتی ہے جب ایک شخص اپنے سارے جھمیلوں اور مصائب سے گلو خلاصی کروا کر اپنے کسی گوشئہ عافیت میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔
خاموشی ا پنی ذات کی جانب دھیان کا ذریعہ
علاوہ ازیں، جب خاموشی اور تنہائی میسر آتی ہے تو پھر اپنی ذات کی طرف دھیان جاتا ہے. پھر اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔میں نے رات کے پچھلے پہر گہرے سکوت میں ایسی آوازوں اور احساسات کا مشاہدہ کیا ہےجو دن کے شور و غوغا اورہنگامہ خیزی میں سنائی نہیں دیتیں.خاموشی میں اُن آوازوں اور احساسات کو محسوس نہیں کیا جاسکتا.
خاموشی میں سنائی دینے والی پر اسرار آوازیں
رات کی گھمبیر خاموشی میں جھینگر کی چرچر،ہوا کے دوش پر اُڑتے اور بکھرتے ہوئے سوکھے پتوں کی سرسراہٹ.جاڑے اور ٹھٹھرتی سردیوں کی راتوں میں ویران اور اداس دکھائی دینے والی گلیوں میں کسی حلوائی کی دوکان کے نیم گرم چولہے کے ساتھ سمٹے سمٹائے کتوں کی کھُر کھُر.
مزید برآں کارپوریشن کے نل سے قطرہ قطرہ بہتے پانی کی ٹپ ٹپ.رگوں میں دوڑتے خون کی سنسناہٹ.دل کی دھڑکن کی دھن دھناہٹ،گھڑی کی ٹِک ٹِک.کہیں دور سے کبھی کم اور کبھی زیادہ سنائی دیتی کتوں کے بھونکنے کی آوازیں.چاند کے ہالے کے گرد گھومتی ٹٹیری کی مترنم پکار.
ان دیکھےقدموں کی آہٹ.نیم سوختہ رنگ بدلتی اور مدھم پڑتی شمع کے گرد دیوانہ وار گھومتے پروانوں کی بھنبھناہٹ.کسی مترنم ندی کی لہروں کی مرمراہٹ. محرم راز سے کی گئی سرگوشیاں .گھنےدرختوں کی ٹہنیوں اور پتوں سے گزرتی ہوائیں.چاندنی راتوں میں چکور کی خوش کُن اور سُریلی گنگناہٹ.غنایت آمیز بل کھاتےجھرنوں میں اٹھکھیلیاں کرتی اور ہوا کے دوش پرناچتی لہروں کی گنگناہٹ.
رات کے پچھلے پہر کسی کتاب کا مطالعہ کرتے وقت پلٹتے صفحوں کی سرسراہٹ.جمائی لیتے وقت حلق سے برآمد ہوتی غرغراہٹ.کسی کے احساس کی موجودگی کی آہٹ کو کبھی کانوں میں محسوس کیا ہے آپ نے۔۔۔۔۔؟(خاموشی کی کہانی )
خاموش نگاہوں کی زبان
مجھے تو اس کا ذاتی تجربہ ہے جسے صفحہ ء قرطاس پر منتقل کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ خاموش نگاہوں کی بھی ایک زبان ہوتی ہے جسے کانوں سے نہیں دل اور نگاہوں ہی سے سنا اورمحسوس کیا جاسکتا ہے۔
توجہ کن پہلو
خاموشی کی یہ ساری آوازیں اور محسوسات آخر دن کے اجالے اور شور شرابے میں کہاں گُم ہو جاتے ہیں. اگرچہ ان کا وجود تو اپنی جگہ قائم و دائم رہتا ہے۔
چونکہ دن کی ہنگامہ خیزی اور مصروف زندگی کی بھاگم بھاگ ان پر غلبہ ڈال کر ہمیں اس طرف سے غافل کر دیتی ہے.(خاموشی کی کہانی ) اس لئے ہم چاہتے ہوئے بھی ان کے احساس تک کو نہیں پا سکتے۔یہ کیسا خوش کُن اور دلفریب احساس ہے کہ کسی غُنچے اور کلی کے چٹخنے کی بھی آواز ہوتی ہے۔
(خاموشی کی کہانی ) اس کے علاوہ زمین سے کسی پودے کے پھُوٹ نکلنے کی بھی آواز ہے۔نور کے تڑکے میں جب فطرت بھرپور انگڑائی لے کر بیدار ہوتی ہے. پھر اپنے ساتھ دھرتی کے ان صوتی اثرات کو بھی جگاتی ہے. جن کا ہمیں احساس تو ہوتا ہے لیکن اپنی الجھنوں اور شور و غوغا کے عادی کانوں سے انہیں سُن نہیں پاتے۔
احساس خاموشی اور اقبال
رات کے پچھلے پہر صبح ہونے سے کچھ پہلے سبزے اور پھولوں کی نرم و نازک پتیوں پر آہستہ آہستہ گرتے شبنم کے صاف و شفاف قطروں کی بظاہر غیر محسوس سی آواز کو کسی نے سننے کی کوشش کی ہے کبھی۔۔۔۔۔؟
اسی طرح خاموشی میں چھپی اور بھی کئی ایسی آوازیں اور احساسات ہیں جو دن بھر کی شورشوں اور تگ و دو میں بھلا کہاں سنائی دیتے ہیں. اگرچہ کہ اپنا وجود رکھتے ہیں۔۔۔اقبال نے کیا خوُب کہا ہے۔۔۔۔
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈھتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
صوفیائے کرام اور اولیائے کرام کا شیوہ
خاموشی اور سکوت کو اس کی اہمیت کی وجہ سے سونا کیا جاتا ہے۔ جو لوگ رش اور شور والے ماحول یا فضامیں رہتے یا کام کرتے ہیں ان کی طبیعت میں غصہ اور چڑچڑا پن ان افراد کی نسبت زیادہ ہوتا ہے جو پُرسکون ماحول میں وقت گزارتے ہیں۔
غور و حوض اور تلاش وجود کے لئے تنہائی اور پُرسکون ماحول کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے صوفیا ء بھی خود کو لوگوں کے پرشور ماحول سے علیحٰدہ کر کے جنگلوں اور بیابانوں میں کوئی گوشہء تنہائی تلاش کر کے خلوت میں خدا کا ذکر کرنے میں مگن رہتے ہیں.
تنہائی اور پرسکون ماحول کے بغیر گوہرمقصد کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔نگاہیں لگتا تو ایسے ہے کہ خاموش ہیں لیکن اپنے اندر داستان در داستان کا ایک اتھاہ سمندر لیے ہوتی ہیں۔بلکہ نگاہیں بولتی ہیں مگر ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
خاموشی سے جڑے احساسات کا مشاہدہ کرنے والے مسافر
ؔسنائی دیتی ہے یہ کس کی دھڑکن ہمارا دل یا تمہارا دل ہے۔۔۔۔ان چیزوں اور احساسات کا صرف انہیں ادراک اور مشاہدہ ہوتا ہے جو اس راہ کے مسافر ہوتے ہیں. ان کی حسیات بیدار ہوتی ہیں۔۔۔تبھی تو انہیں ان کا اپنے رگ وپے میں بھرپور اور گہرا احساس ہوتا ہے۔
کیا کبھی کسی نے رات کے گہرے سکوت میں جلتی ہوئی شمع کی لو پر دیوانہ وار تڑ تڑ قربان ہوتے پروانوں کو دیکھا اور سنا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا کبھی مشاہدہ کر کے دیکھیں۔
تحریر افتخار محبوب(مصنف/ادیب)
وزن کم کرنے کے شرطیہ ٹپس آپ بھی آزمائیں اور صحت مند زندگی پائیں.
چکن تکہ مصالحہ ریسیپی ـ ایک مشہور اور ہر دل عزیز ایشیائی پکوان