جہاد اور دہشت گردی

(جہاد اور دہشت گردی) مسلمانوں پر ایک بین الاقوامی الزام ہے کہ وہ دہشت گر د ہیں.وہ ظالم ہیں، بے رحم ہیں۔مسلمانوں کا یہ تعصر بے بنیاد بلاجوا زاور غیر منتقی ہے۔

حالانکہ مسلمان ایسے نہیں جس طرح کے اُنھیں پیش کیا جاتاہے۔کیونکہ وہ تو اُس رب کے ماننے والے ہیں جو زمین کی تہہ میں ایک پتھرمیں ایک کیڑے کو بھی پال رہا ہے۔ لہذا مندرجہ ذیل حقائق اور معلومات کا بغور مطالعہ کر کے آپ خود فیصلہ کریں۔

جہاد اور دہشت گردی

جہاد اور دہشت گردی

یہ ایک ہجری کو فرض ہوا تھا۔

جہاد کی فرضیت کا حکم سورۃ البقرہ آیت نمبر 216اور سورۃ الج آیت نمبر 39میں آیا ہے۔

پہلا غزوہ ایک ہجری کو ہوا تھا جس کو غزوہ ابوا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

یادرکھیے غزوہ اُس جنگ کو کہتے ہیں جس میں ہمارے آخری نبی نے شرکت کی ہو۔

دور نبوی میں کُل 87جنگیں لڑی گئیں جن میں 27غزوات تھے۔

درج بالا جنگوں میں شہید ہونے والے صحابہؓ کی تعداد 256جبکہ 1000کفار قتل ہوئے۔

اکثر 87جنگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔درحقیقت اسلام تلوار کے زور پر نہ پھیلا. دلیل یہ ہے کہ اگر اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہوتا تو جن علاقوں میں مسلمانوں کی حکومت رہی وہاں آج کافر نظر نہ آتے۔

اسی طرح اسلام کے پھیلنے کے حوالے سے قرآن میں لکھا گیا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا. بلکہ ہمارے پیارے نبی کے بلند کردار اور اعلیٰ اخلاق کی بدولت پھیلا(سورۃ آل عمران آیت نمبر 159)۔

دور نبوی میں حکمت عملی تھی کہ جنگ کے دوران کم قتال ہوں. کیونکہ 87جنگوں میں 1000کفار کا قتل زیادہ بڑی تعداد نہ ہے۔اس کے برعکس اگر کوئی خود کش بمبار کہیں خود کش کرے تو اُس ایک خود کش دھماکے کے نتیجے میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مر سکتے ہیں۔

جہاد کی اقسام

جہاد باالنفس.
با القلم.
جہاد باالمال

۔جہاد باالسیف

جو جہاد تلوار کے ذریعے کیا جائے جہاد باالسیف کہلاتا ہے۔جہاد باالسیف کرنے سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ حرمت کا مہینہ تو نہیں چل رہا۔حرمت کے مہینوں میں قتال ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ حرمت کے ماہ درج ذیل ہیں۔
۔محرم
۔رجب
۔ذی القعد
۔ذی الج

ڈیفنس کی صورت میں حرمت کے مہینوں میں جہاد کیا جا سکتا ہے۔یعنی جب کوئی ملک آپ پر حملہ آورہو تو چاہے حرمت کے مہینے چل رہے ہوں. جہاد جائز ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے باطل خیالات کے سوا کتاب سے واقف ہی نہیں. اور وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں۔(القرآن، سورۃ البقرہ 78)۔

طاقت کا تناسب

سورۃ الانفال کی آیت نمبر 66میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ جنگ میں ایک مسلمان دو کفار پر بھاری ہے۔

جہاد کے مقاصد (قرآن کی روشنی میں)

قتل کے بدلے قتل Law of Equality >

دور نبوی میں ایک جنگ لڑی گئی جس کو جنگ متاع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔یہ جنگ لڑی گئی کیونکہ ہمارے پیارے نبی  کے قاصد حارث بن عمیر ؓ کو کفار نے قتل کر دیا تھا. لہٰذا اُن کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے یہ جنگ لڑی گئی۔

دفاع بچاؤ کے لئے جنگ Defensive Wars

“اللہ کے لئے جنگ کر و اُن سے جو تم سے جنگ کریں “۔(البقرہ 190)
یو این  چارٹر 224میں بھی دفاع میں جنگ لڑنا جائز ہے۔دور نبوی میں زیادہ تر جنگیں دفاع میں لڑی گئیں۔

مقبوضہ علاقہ پر قابو پانے کے لئے

“اور ان کو جہاں پاؤ قتل کر دواور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے وہاں سے تم بھی اُن کو نکال دو”(البقرہ 191)
جس علاقے میں آپ مقیم ہیں اس پر غیر قانونی قبضہ چھڑوانے کے لئے اسلام آپ کو جہاد /جنگ کی اجازت دیتا ہے. کیونکہ یہ آپ کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔

جہاد اور دہشت گردی

امن کے لئے جہاد War for Peace

اور اُن سے اُس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہوجائے اور خداہی کا دین ہوجائے. اور اگر وہ باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں  (البقرہ 193)

یعنی فتنے کو ختم کرنے کے لئے بھی جہاد کیا جاسکتا ہے۔اس مقصد کو مد نظر رکھا جائے تو اصل میں پاک آرمی جہاد کر رہی ہے ۔دہشت گر دوں کےعزائم اُس وقت واضح ہوگئے تھے جب ٹی ٹی پی کا ترجمان احسان اللہ احسان اور کلبھوشن یادو پکڑے گئے تھے۔

دونوں نے اپنے بیانات میں کہا کہ افغانستان کی ایجنسی  این  ڈی ایس اور انڈین ایجنسی راء  دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہیں. لہٰذا یہ واضح ہے کہ اسلام دہشت گر دی کے خلاف جبکہ کافر دہشت گر دی کو فروغ دے رہے ہیں(جہاد اور دہشت گردی) ۔ حلف کی

خلاف ورزی Violation of Oath

اور اگر عہد کرنے کے بعد وہ اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعنے کرنے لگیں. تو اُن کفر کے پیشواؤں سے جنگ کر و اُن کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔عجب نہیں کے باز آجائیں  (التوبہ12)۔

جزیہ حاصل کرنے کے لئے Receiving of Jizya

جزیہ ایک قسم کا ٹیکس ہے جو کافروں سے اُن علاقوں میں اکٹھا کیا جا تا ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو۔اُن کے تحفظ یا اُنھیں آزادی سے اُن کی عبادت گاہوں میں عبادت کرنے کے لئے جزیہ لیا جاتا ہے. اور اگر وہ جزیہ ادا نہ کریں تو اُن کے خلاف جہاد کیا جا سکتا ہے۔

جو اہل کتا ب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے ،وہ روز آخرت پر اور ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اُس کے رسول نے حرام کی ہیں.اس کے علاوہ، وہ دین حق کو قبو ل بھی نہ کرتے ہیں. اُن سے جنگ کرویہاں تک کے ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں  ۔

شریعہ کے نفاذ کے لئے Enforcement of Shria

اور اُن لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب خدا ہی کا ہوجائے.لیکن اگر باز آجائیں تو خدا ان کے کاموں کو دیکھ رہا ہے (الانفال39)

مظلوم کی مدد کے لئے جہادHelp for the Oppressed

اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں اور اُن بے بس مردوں اور عورتوں او ربچوں کی خاطر نہیں لڑتے .جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اگر پر وردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا ۔اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما (النساء 75)۔

درج بالا نکات کی روشنی میں تجزیہ

درج بالا مقاصد کے لئے جہاد کرنا ضروری ہے۔اگر قرآنی آیات پر غور کیا جائے تو جہاد کرنے کی تمام وجوہات منتقی نظر آتی ہیں۔یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ درج بالا مقاصد کے علاوہ جو بھی جہاد کیا جائے گا.وہ جہاد نہیں بلکہ فتنہ کہلائے گا۔کیونکہ مسلمان صرف درج بالا مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاد کرتے ہیں جیسا کہ دور نبوی میں ہوتا رہا ہے۔

اسی طرح دہشت گر دی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہر گز اسلام کا حصہ نہیں۔”ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے “(القرآن)۔ یہ اسلام ہے جو ایک انسانی جان کو کس قدر فوقیت دیتا ہے۔آیت مذکور سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ناحق قتل گناہ کبیرہ ہے جس کی معافی نہیں. جس ذات نے ہمیں دین اسلام عنائیت کیا ہے وہ کب چاہے گی کہ مذہب کے نام پر معصو م انسانوں کا قتل کیا جائے۔

دہشت گر د تنظیمیں اور دہشت گر د کسی بھی صورت مسلمان کہلانے کے حق دار نہیں۔ہمارا دین محبت پیا ر اور رواداری کا درس دیتا ہے۔بہترین اخلاق اور اعلیٰ کردار سے تبلیغ کرنے پر زور دیتا ہے۔جیسا کہ ہمارے پیارے نبی  نے عملی طور پر کر کے دکھایا۔

(جہاد اور دہشت گردی) دور حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانان عالم اکٹھے اور متحد ہو جائیں. اپنے جھگڑوں اور غلط فہمیوں کو بُھلا کر دوستی کا ہاتھ آگے بڑھائیں۔یہ ایک واحد عمل ہے جس کے ذریعے ہم کافروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں، اور دین اسلام پوری دنیا پر دوبارہ غالب آسکتا ہے۔

بقلم فرحان بٹ
lbuttfarhan786@hotmail.com
سوشل میڈیا کے منفی اثرات اور اُن کے حل کے لئے بہترین سفارشات
پُر اسرار سوالات کے جوابات

اپنا تبصرہ بھیجیں