افغانستان سے امریکہ کی بے دخلی اور طالبان کی حکومت

اپریل 2010 میں صدر باراک اوباما نے اعلان کیا کہ امریکی فوجی دستے ستمبر 2001 تک افغانستان سے نکل جائیں گے ۔طالبان افغان حکومت کے ساتھ جاری امن مذاکرات کے باوجود ملک بھر کے علاقوں پر قبضہ اور مقابلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ اور اس نے افغان نیشنل ڈیفنس پر حملے بڑھا دیے ۔ سیکیورٹی فورسز کے اڈوں اور چوکیوں نے تیزی سے مزید علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ۔ 2019 میں امریکہ نے اپنے فوجیوں کی واپسی کی رفتار تیز کر دی ۔جولائی 2021 کے اختتام پر امریکہ نے انخلا کا تقریبا 95 فیصد مکمل کرلیا تھا اور کابل میں امریکی سفارتخانے کی حفاظت کیلئے صرف چھ سو پچاس فوجی باقی رہے ۔
زمینی صورتحال کے پہلے انٹیلی جنس جائزوں کے باوجود طالبان کے علاقائی فوائد اور اے این ڈی ایس ایف اور افغان حکومت دونوں کے خاتمے کی رفتار نے امریکی عہدے داروں اور اتحادیوں کے ساتھ مبینہ طور پر خود طالبان کو بھی حیران کر دیا ۔بائیڈن انتظامیہ نے اضافی چھے ہزار فوجیوں کی تعیناتی کی اجازت دی تاکہ وہ امریکہ اور اس سے وابستہ اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ہزاروں افغانیوں کو بھی نکال سکیں ۔جو امریکہ کے ساتھ کام کرتے تھے اور فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے ۔افغان حکومت کے خاتمہ کی رفتار نے افغانستان سے پناہ گزینوں کے بڑے پیمانے پر ہجرت کا خطرہ لاحق کردیا تھا۔

القاعدہ کے گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے تناظر میں طالبان حکومت نے دہشت گرد رہنما اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے سے انکار کرنے کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا ۔ طالبان قیادت نے تیزی سے ملک کا کنٹرول کھو دیا اور جنوبی افغانستان اور سرحد پار پاکستان منتقل ہو گئ۔ وہاں سے انھوں نے کابل میں مغربی حمایت یافتہ حکومت افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز اور بین الاقوامی اتحادی فوجیوں کے خلاف شورش برپا کی۔
جب امریکی قیادت میں اتحاد نے 2014 میں اپنا جنگی مشن باضابطہ طور پرختم کیا تو اے این ڈی ایس ایف کو افغانستان کی سکیورٹی کا انچارج بنا دیا گیا ۔تاہم اے این ڈی ایس ایف کو علاقہ پر قبضہ کرنے اور آبادی کے مراکز کے دفاع میں نمایاں چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ۔جبکہ طالبان دہی اجلا پر حملے کرتے رہے اور بڑے شہروں میں خودکش حملے کرتے رہے ۔2017 میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی ،جنگ کا مشن جاری رکھنے اور طالبان کی آمدنی کے ذرائع کو نشانہ بنانے کے لئے امریکی فوجی حکمت عملی میں تبدیلی کے باوجود جنگ تقریبا چھ سال تک تاخیر کا شکار رہی ۔جس میں منشیات کی لیبز اور افیون کی پیداوار کے مقامات پر فضائی حملے بھی شامل تھے ۔
طالبان نے ملک بھر میں صوبائی دارالحکومتوں سمیت علاقے کا مقابلہ جاری رکھا ۔اس گروہ نے مئی 2018 میں مختصر طور پر صوبہ فراہ کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا تھا ۔اور اگست 2018 میں اس نے صوبہ غزنی کے دارالحکومت پر قبضہ کرلیا ۔ جس نے امریکی اور افغان فوجیوں کے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے سے قبل تقریبا ایک ہفتے تک شہر کو اپنے قبضے میں کر لیا ۔حالیہ برسوں میں اے این ڈی ایس ایف کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ۔
فروری 2020 میں ایک سال سے زیادہ براہ راست مذاکرات کے بعد امریکی حکومت اور طالبان نے امن معاہدے پر دستخط کئے ۔اس امن معاہدے کے مطابق افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا ءکی ٹائم لائن مقرر کی گئی تتھی۔ معاہدے کے تحت امریکہ نے 135 دنوں کے اندر 8500 امریکی فوجیوں کو 14 ماہ کے اندر مکمل انخلاء کا وعدہ کیا ۔اس کے بدلے میں طالبان نے اپنے زیر کنٹرول علاقے کو دہشت گرد ہم گروہوں کے استعمال سے روکنے کا معاہدہ کیا ۔اور ساتھ ہی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا وعدہ کیا۔
تاہم کوئی سرکاری جنگ بندی نہیں کی گئی ۔تشدد میں مختصر کمی کے بعد طالبان نے تیزی سے افغان سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملے شروع کر دیئے ۔ افغان حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات مارچ 2020 کے آغاز پر متفق ہونے کے کئی ماہ بعد شروع ہوئے ۔اس سب میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر بہت کم پیشرفت ہوئی ۔2020 اور 2019 میں افغانستان بھر میں تشدد جاری رہا ۔جبکہ امریکہ نے فضائی حملوں اور چھاپوں میں طالبان کو نشانہ بنایا ۔طالبان نے افغان حکومت اور افغان سکیورٹی فورسز کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ۔اور ان حملوں سے علاقائی فوائد حاصل کیے ۔
طالبان کے حملوں کے علاوہ افغانستان کو خراب خراسان میں دولت اسلامیہ کے خطرے کا سامنا تھا۔ جس نے کی مشرقی صوبوں میں اپنی موجودگی کو بڑھا دیا ۔کابل پر حملہ کیا ۔اور خودکش حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا ۔
بین الاقوامی امداد کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال نے افغان معیشت پر دباؤ ڈالا ہے ۔اگرچہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 2020 کے آخر میں افغان حکومت کو مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔لیکن وہ طالبان کے قبضے کے بعد امداد کم کر سکتے ہیں ۔اس طرح کا اقدام افغانستان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو پیچیدہ بنا سکتا ہے ۔

خدشات

امریکہ کو بہت سے سیاسی انسانی حقوق اور سیکیورٹی فوائد کو محفوظ رکھنے کی کوشش میں دلچسپی ہے ۔قبضہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ میں کی گئی پیش رفت کو ریورس کرنے کی دھمکی بھی دیتا ہے ۔مزید یہ کہ اندرونی عدم استحکام پناہ گزینوں کا بڑے پیمانے پر ہجرت اور بڑھتے ہوئے انسانی بحران کی وجہ سے پڑوسی ممالک کے ردعمل کے طور پر علاقائی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ پاکستان بھارت ایران اور روس سے بھی ممکنہ طور پر قابل میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ جاری رکھیں گے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں