پیپلز میڈیکل یونیورسٹی: دوستی کرو‘انجوائے کرو‘نہیں تو فیل۔کیایہاں طالبات کو ہراساں کیا جاتا ہے؟حال ہی میں پیپلز میڈیکل یونیورسٹی سندھ کی ایک طالبہ پروین رند نے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔
پروین رند کے مطابق پیپلز میڈیکل یونیورسٹی میں لڑکیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے کہ ہمارے ساتھ وقت گزارو۔دوستی کرو‘باہر ڈنر پر چلو اور اگر لڑکیاں حامی نہیں بھرتیں تو انہیں فیل کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔بہت سی لڑکیوں کے ساتھ غلط ہوچکا ہے۔
وہ اپنی یا اپنے والدین کی بے عزتی کے ڈر سے نام نہیں لیتیں اور اگر کوئی شور و غل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو انہیں مار کر خودکشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔
طالبہ کا کہنا ہے کہ میں نے اس ظلم کے خلاف انکار کیا تو 9فروری کی صبح تین خواتین جنہوں نے چہرے پر ماسک لگا رکھے تھے میرے کمرے میں داخل ہوئیں۔داخل ہوتے ہی انہوں نے میرے ساتھ مارپیٹ شروع کر دی اور میرا گلا بھی دبایا اور میں اپنی جان بچانے کے لئے دروازے کی طرف بھاگی۔
یہ خواتین کہہ رہی تھیں کہ اگر تم نے فلاں عہدیدار کے ساتھ جنسی تعلقات نہ رکھے تو تمہیں مار کر لاش پنکھے سے لٹکا دی جائے گی۔جبکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن علی میمن کا کہنا ہے کہ ہم ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
اس طالبہ کو ہراساں نہیں کیا گیا دراصل اس کا اور اس کے ہاسٹل کا مسئلہ تھا جو کہ حل ہوچکا ہے‘اور نہ ہی لڑکی پر کسی قسم کا کوئی تشدد ہوا ہے۔
گزشتہ روز صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو یونیورسٹی آئیں تو انہیں بھی اس معاملہ کی شکایت کی گئی جس پر ڈاکٹر عذرا نے کہا کہ آپ کے ساتھ انصاف ہو گا اور وہ یہ کہہ کر چلی گئیں۔
جبکہ متاثرہ طالبہ پروین رند نے ہنگامی پریس کانفرنس میں بتایا کہ نہ تو پولیس کی طرف سے ابھی تک متعلقہ ملزمان کو پکڑا گیا ہے اور نہ ہی وائس چانسلر یا وزیر صحت کی طرف سے کوئی ایکشن لیا گیا ہے کیونکہ انہیں ابھی تک دھمکیاں مل رہی ہیں اوران کی گاڑی کا پیچھا بھی کیا جارہا ہے۔