عالمی معیشت کے مستقبل کو بڑا خطرہ.عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی ملٹی نیشنل انویسٹمنٹ بینک جے پی مورگن نے خبردار کیا ہے کہ اگر تیل کی عالمی مارکیٹ میں روسی تیل کی سپلائی میں رکاوٹیں برقرار رہیں تو خام تیل کی قیمت 185ڈالرز فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے۔
موجودہ صورتحال کے مطابق روسی خام تیل کو خریدار نہیں مل رہے‘اور امریکی صدر پر بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ روسی تیل کی خریداری بند کی جائے۔لیکن اس حوالے سے امریکی صدر نے ابھی تک کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
سابقہ دنوں میں یوکرین اور روس کے مابین بات چیت سے مسئلے کو حل کرنے کی اطلاعات سامنے آنے پر تیل کی قیمتوں میں کچھ استحکام آیا تھا لیکن جنگ کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال نے عالمی مارکیٹ کو پھر سے بحران کا شکار کر دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق روس پر امریکی پابندیوں نے تیل کی عالمی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو بھی غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہوا ہے حالانکہ امریکہ کی جانب سے روس کی تیل کی مصنوعات پر پابندیاں عائد نہیں کی گئی ہیں لیکن پھر بھی سرمایہ کار روسی کی تیل کی مصنوعات کی خریداری سے گریز کر رہے ہیں کہ کہیں ان پر پابندی لگ گئی تو یہ ویسے ہی پڑے رہیں گے۔
مزید یہ کہ خریدار روس کو ادائیگیوں کے حوالے سے درپیش خدشات کے باعث روسی تیل کی خریداری سے بھی گریز کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ روس دنیا کا دوسرا بڑاتیل پیدا کرنے والا ملک ہے جو کہ بنیادی طور پر یورپی ریفائنرز کو خام تیل فروخت کرتا ہے اور اسی طرح یورپی ممالک کو قدرتی گیس کا سب سے بڑا فراہم کنندہ بھی روس ہی ہے جو کہ یورپی ممالک کی سپلائی کا تقریباً 35فیصد فراہم کرتا ہے۔اگر امریکہ یا دیگر یورپی ممالک روس پر یہ پابندیاں لگاتے ہیں تو روس اس کے برعکس یہ دو اہم چیزیں بند کرسکتا ہے لیکن اس کا نقصان روس کو بھی ہوگا۔
اسی طرح روس یوکرین کی جنگ کے عالمی معیشت پر بدترین اثرات سامنے آرہے ہیں۔عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔برطانوی خام تیل کی قیمت 120ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے۔اس بحرانی صورتحال کے پیش نظر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مستحکم رکھنے کے لئے امریکہ نے اپنے اسٹریٹجک ذخائر سے 30ملین بیرل تیل جاری کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ تیل آئندہ کے لئے کافی ہو گا۔ کھپت کے لحاظ سے یہ چند دنوں کا تیل ہو گا۔بلآخر پھر سے صورتحال وہی ہونے کا اندیشہ ہے۔