ڈپریشن کی علامات اور علاج نیز اس سےبچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر
لفظ ڈپریشن آج کل حرف عام بن گیا ہے۔ایک طرح سے یہ بات اچھی ہے کہ لوگوں میں ڈپریشن کےمتعلق آگاہی بڑھ رہی ہے۔لیکن ہر اداسی کی کیفیت کو ڈپریشن قرار دے دینا اس کی اہمیت کو بھی کم کررہا ہے۔اور ساتھ ہی جن لوگوں کو واقعی ڈپریشن ہے ان کیلیے بھی مشکلات کھڑی کررہا ہے۔
ڈپریشن ایک دماغی بیماری ہے ۔ یہ ایک طرح کا موڈ دس آرڈرہے جس میں انسان مسستقل اداسی اور معاملات زندگی میں عدم دلچسپی کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔یہ دنیا کے تقریبا” ۱۰فیصدافراد کو متاثر کرتا ہے۔سی ڈی سی کے مطابق ۱۸سے۲۹ سال کے افراد ڈپریشن سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
اس مرض میں چونکہ نزلہ کھانسی جیسی علامات نہیں ہوتی جس وجہ سے اکثر ڈپریشن کا شکار لوگ اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ انہیں ڈپریشن ہے۔
ڈپریشن ایک ایساعارضہ ہےجوخیالات،احسساسات اور رویوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتا ہے۔اور انہی چیزوں میں بدلاؤ کے ظاہر ہونے سے اس کی تشخیص میں مدد ملتی ہے۔ڈپریشن کی سب سے عام قسم میجر ڈیپریسو ڈس آرڈرہے۔اور عموما” لوگوں کا اسی طرف اشارہ ہوتا ہے جب وہ ڈپریشن کی بات کرتے ہیں۔باقی اقسام میں شامل ہیں۔
سیزنل ڈپریشن
(موسم سرما میں ہونے والا ڈپریشن)
پوسٹ پارٹم ڈپریشن
(بچے کی پیدائش کے بعد،ماں کو ہونے والا ڈپریشن)
ڈستھائیما
(۱سے ۲ سال تک جاری رہنے والا ڈپریشن)
ڈپریشن سائیکل کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ یعنی ایپیسوڈک ہوتا ہے جس سے مراد یہ کہ یہ آتا جاتا رہتا ہے۔ ڈپریشن کے ایپیسوڈ اپنی تمام علامات کے ساتھ ایک دن،یا روز یا پھر تقریبا” ۲ ہفتے تک موجود رہ سکتے ہیں ۔
ڈپریشن کی علامات
ڈپریسو ا یپیسوڈ میں انسان افسردگی،ناامیدی کی کیفیات سے گزرتا ہے۔
اس حصاب سےڈپریشن کی علامات کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
کیفیت میں تبدیلی
ڈپریشن سب سے زیادہ انسان کی اندرونی کیفیات کو متاثر کرتا ہے،جن میں سرفہرست ہیں(ڈپریشن کی علامات اور علاج).
1.مستقل رہنے والی اداسی
2.غصہ
3.شرمندگی
4. نا امیدی/مایوسی
اس کے بعد ظاہری علامات۔
رویے میں بدلاؤ
سماجی تعلقات میں عدم دلچسپی
توانایٔ کی کمی
حوصلے میں کمی
عدم توجہ
نیند میں مشکلات
بھوک لگنےمیں واضح تبدیلی
ڈپریشن کے اثرات انسان کی سوچ پر۔
خود اعتمادی میں کمی/احساس کمتری
خود کشی کے خیالات
باقاعدگی سے کرنے والی سرگرمیوں میں عدم دلچسپی
معمولی سےمعمولی کام جیسے نہانے دھونے،بال بنانے،کپڑے بدلنے میں دشواری پیش آنا اور دلچسپی ظاہر نہ کرنا ۔خود کے حلیے اور کھانے پینے کا خیال نہ رکھنا ڈپریشن کی علامات میں سے ہے۔
ہمارے جذبات اور نیوروٹرانسمٹر
اس طرح کی مزاج میں تبدیلیوں کو ڈپریشن کی علامات قرار دینا بعض اوقات مشکل ہوتا ہے کیونکہ بظاہر لوگ اس اداسی،غصے،چڑچڑےپن اور لوگوں سےملنے جلنے کی کمی کو اس کی بد اخلاقی یا نکچڑےپن سے جوڑتے ہیں۔اور جس پر یہ گزر رہی ہوتی ہے اسے بھی ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ سب اس کے دماغ کا فطور ہے۔
ڈپریشن یا کسی بھی دماغی بیماری پہ بات کرتے ہوئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری خوشی،غم،اداسی،سکون،بے چینی، ڈراور خوف کی یہ تمام کیفیات صرف ہمارے ہی نہیں بلکہ ہمارے دماغ میں موجود کچھ کیمیکل یعنی نیوروٹرانسمٹر کر رہے ہوتے ہیں۔
ڈپریشن کی وجوہات
ڈپریشن کی اصل وجوہات کو جاننا مشکل ہے لیکن ان نیوروٹرانسمٹر کے لیولز کا ڈپریشن پہ خاصا اثر ہوتا ہے۔اور ڈپریشن کی دوائیں بھی انہی کو ٹارگٹ کرتی ہیں۔
جینیات ا ور فیملی ہسٹری بھی ڈپریشن کی وجہ بن سکتی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ والدین میں سےکسی کو ڈپریشن ہو تو بچے کو بھی ضروری ہو۔اس کے علاوہ کویٔ تکلیف دہ یا افسسردہ حادثہ یا کشیدہ صورتحال یاماحولیاتی تبدیلی یا پھر غربت اور کسمپرسی بھی ڈپریشن کی وجہ بن سکتی ہے۔
ڈپریشن کا علاج
(ڈپریشن کی علامات اور علاج) کچھ نیٔ عادتیں اور طرز زندگی میں چند تبدیلیاں
طرز زندگی میں تبدیلیاں لا کر ڈپریشن کی علامات کو کم کیا جاسکتا ہے ۔جیسے کہ ورزش ایک سستی اور اچھی تھراپی ہے۔روزانہ کچھ دیر ورزش کرنے سے جسم میں خاص کیمیکل جیسے “اینڈورفنز” خارج ہوتے ہیں جو انسان کو خوشی اور اطمینان وسکون فراہم کرتے ہیں۔
رات میں جلدی سونے اور صبح جلدی اٹھنے سے “کارٹیسول” جسے اسٹریس ہارمون بھی کہتے ہیں اس کی مقدار بھی کنٹرول میں آجاتی ہے۔
موبائل فون کے استعمال میں کمی لانے سے بھی بہت سی پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔اس کے ساتھ “جرنالنگ “یعنی اپنے احساسات اور روزمرہ کے معمولات کو ڈائری میں قلمبند کرنے سے بہت سی باتیں واضح ہوتی ہیں۔
کھانے میں پھلوں اور سبزیوں کے استعمال سے بھی انسان خوشگوار محسوس کرتا ہے۔وٹامن ڈی اور آئرن کا استعمال بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
طبی علاج
ڈپریشن میں مبتلا افراد کے علاج کیلیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس کے ہونے کی وجہ کو پہچانیں۔
سائیکو تھراپی اس سلسلے میں انتہایٔ مفید ہے۔یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں دواوؤں کے استعمال کے بجائے روزانہ کی بنیاد پہ مریض اور تھراپسٹ کے درمیان گفتگو ہوتی ہے جس میں تھراپسٹ مریض سے اسکے حال اور کیفیت سے متعلق سوال کرتا ہے ۔اس بات چیت سے انسان کے برتاو میں بہتری،مشکلات میں کمی اور خوش رہنے میں مدد ملتی ہے۔
اس کے علاوہ ڈپریشن کو کم کرنے کیلیے دوائیں بھی دی جاتی ہیں۔لیکن دونوں کے ساتھ استعمال سے بہتر اور فوری نتائج سامنے آتے ہیں۔
ڈپریشن سے جڑے لوگوں کے خدشات
ڈپریشن کے علاج کے لیے سائیکیاٹرسٹ (نفسیات کا ڈاکٹر جو دوایٔ سے علاج کرتا ہے)کے پاس جانا آج بھی ہمارے معاشرے میں کافی حد تک مایوس کن سمجھا جاتا ہے ۔
نفسیاتی امراض کو اکثر پاگل پن سے جوڑا جاتا ہے اور سائیکیاٹرسٹ کو پاگلوں کا ڈاکٹر سمجھ کر اس کے علاج کے حصول کو مشکل کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ ڈپریشن کے علاج اور اسے ٹھیک کرنے کیلیے سائیکیاٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ کا کلیدی کردار ہے۔
دونوں میں فرق اس بات کا ہے کہ سائیکیاٹرسٹ زیادہ پیچیدہ بیماریوں کا دواوؤں سے علاج کرتے ہیں جبکہ سائیکالوجسٹ ان بیماریوں کا علاج کرتے ہیں جنہیں دواوؤں کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ڈپریشن سے گزرنے والے فرد کا خاص خیال
آخر میں یہ بات سمجھنا انتہایٔ اہم ہے کہ ڈپریسڈ انسان خواہ وہ کسی بھی عمر یا جنس سے تعلق رکھتا ہو ،اسے ہماری ہمدردی،خیال ،توجہ اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسے میں ہمیں اسے تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔کیونکہ یہ مستقل مایوسی اور اُداسی انسان کو کو انتہایٔ اقدام اٹھانے پر مجبورکرسکتی ہے جیسا کہ خودکشی۔
اومی کرون وائرس سے جڑے تمام سوالات کے جوابات جوآپ جاننا چاہتے ہیں