وہاب ریاض سے پہلی ملاقات
وہاب ریاض کو پہلی بار دیکھتے ہی میں نےبھانپ لیا تھا کہ وہ ایک روز بہت عظیم کر کٹر بنے گا۔پُر اعتماد، نڈر اور کبھی کبھی منہ پھٹ ۔اُن دنو ں میں پنجاب کالج سے آئی سی ایس میں انٹر کر رہا تھا۔ہم دونوں کا پنجاب گروپ آف کالجز کرکٹ ٹیم میں بعداز ٹرائل انتخاب ہوا تھا. اس طرح مجھے اُس کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کا موقع ملا۔
ٹرائل والے دن چھ فُٹ کا اونچا لمبا نوجوان بائیں ہاتھ سے گیند کرتا ہوا دکھائی دیا۔اُسکے پاس رفتار اور سونگ دونوں تھیں۔اور جب بلے بازی کرتے ہوئے دیکھا تو بھائی ہارڈ ہٹنگ بلے باز بھی نکلے۔
ایک یادگار کرکٹ میچ
ایک روز ہم ایک کرکٹ میچ کھیل رہے تھے۔میچ کی کپتانی مشہور و معروف لیگ سپنر عبدالقادر (مرحوم)کے صاحبزادے سلمان قادر کر رہے تھے۔وہاب ریاض نے جب محسوس کیا کہ کپتان نے اُسے اُس کے نمبر پر بلے بازی کرنے نہ بھیجا ہے. تو وہاب نے پیڈ کیئے، بلا اُٹھایا اور کپتان کی منظوری کے بغیر میدان میں بلے بازی کرنے اُتر آیا۔شوخی مار بیٹھا ہے کہاں چلے گا. سب لڑکوں کی نظروں میں ہے، انتہائی پریشر میں ہوگا. اگر کارکردگی اچھی نہ رہی تو سب مذاق اُڑائیں گے، میں نے دل میں سوچا۔
مگر سامنے منظر کچھ اور ہی تھا . وہاب نے مار مار کے مخالف ٹیم کے چھکے چھڑا دیے اور ٹیم کو فتح یاب کروا کر ہی گراؤنڈ سے باہر آیا۔کپتان جی وہاب سے خوش بھی تھے اور کچھ خفا بھی، وجہ تو آپ جان ہی چکے ہونگے۔بعدازاں اُس نے پریکٹس میچوں اور انٹر کالج ٹورنامنٹ میں کمال کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔
باصلاحیت تو میں بھی تھا اُسی کی طرح ایک آل راؤنڈر.تاہم اپنی ذات پر کامل بھروسہ، یقین اور بہادری کا مظاہرہ کرنےوالی صلاحیتوں کا شاید مجھ میں فقدان تھا۔وہاب ریاض کے ساتھ ایک ٹیم کے ساتھی کے طور پر بہت یادگار وقت گزرا۔
کبھی نہ بھولنے والی افطاری
وہاب ایک امیر آدمی کا صاحبزادہ تھا۔ لہٰذا پوری کرکٹ ٹیم کو ایک بار اُس نے افطاری کے لئے اپنے گھر مدعو کیا۔شیخ زید ہسپتال کے پاس ہی ایک بڑی شاندار کوٹھی میں وہ رہائش پذیر تھا۔وہ افطاری مجھے آج تک نہیں بھولی۔تقریباً اُس دن کھانے پینے کی ہر نعمت افطاری کی اُس میز پر دستیاب تھی۔وہاب نے بتایا کے ساری افطاری اُس کی والدہ نے اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے۔
لہٰذا ہم افطاری کرتے رہے اور ماں جی کو دعائیں دیتے رہے ۔ بغیر کسی شک و شبہہ کے وہ میری زندگی کی یاد گار افطاریوں میں سے ایک تھی۔بعدازاں وہ اپنے راستے میں اپنے راستے۔مگر ایک میچ میں اُس کے ساتھ سلام دعاضرور ہوئی۔بٹ صاحب کیا حال چال ہے جناب “اُس کے ملاقات کے دوران الفاظ تھے”۔ اُ س کے بعد تو وہاب سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔مجھے کرکٹ کو کچھ پڑھائی او ر گھریلو مسائل کے باعث خیر آباد کہنا پڑا۔
اصل ٹیلنٹ آخرکار اپنے مقام پر پہنچ ہی گیا
ایک روز جب وہاب ریاض کو پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم میں کھیلتے ہوئے دیکھا تو میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی ۔یقین نہیں آرہا تھا کہ جو میرے ساتھ انٹر کرکٹ ٹیم میں کھیلتا رہا آج انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم کا حصہ ہے۔ کچھ حسد بھی محسوس ہوا. خیر یہ سوچتے ہوئےخود کو دلاسہ دیا کہ ایک اصل ٹیلنٹ آخر کا ر اپنے جائز مقام پر پہنچ ہی گیا۔اُس دن علم ہوا کہ پاکستان میں صرف سفارش ہی نہیں ٹیلنٹ بھی دیکھا جاتا ہے۔
وہاب نے ورلڈ کپ میں بھارتی ٹیم کے پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا. اُس دن مجھے وہی پرجوش، جذبے سے سرشار، جارحانہ اور رعب سے بھر پور بائیں ہاتھ سے تیز گیند بازی کرتا ہوا اپنا پُرانا ساتھی نظر آیا۔آج کل چند میچوں میں کچھ خراب کارکردگی کی وجہ سے کچھ عرصے سے وہاب پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصہ نہیں. لہذا میری سلیکٹرز سے پر زور اپیل ہے کہ اتنے بڑے ٹیلنٹ کو محمد زاہد اور محمد آصف جیسے ٹیلنٹس کی طرح ضائع نہ ہونے دیں. کیونکہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
فرحان بٹ (گزیٹڈ افسر حکومت پنجاب)
سوشل میڈیا کے منفی اثرات اور اُن کے حل کے لئے بہترین سفارشات
بلڈ پریشرکے مریض فکر کرنا بند کریں