جنات کی حقیقت کیا ہے؟
ہم میں سے زیادہ تر لوگ بالکل درست طور پر کبھی اس مخلوق کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ہم اشارہ کر کے نہیں کہہ سکتے دیکھو وہ جن ہے (جنات کی حقیقت)۔ جنات کے وجود کے بارے میں مختلف قسم کے تصورات ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔
(جنات کی حقیقت) عوام کا تصور جنات
لوگوں سے سُنی گئی کہانیاں کچھ اس طرح کی ہونگی۔میں قبرستان کے باہر سے گزر رہا تھا۔ وہاں ایک عورت دیکھی جس کے پیر اُلٹے تھے (یعنی وہ چڑیل تھی)۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسے انسان کے پاؤں اُلٹے نہیں ہوسکتے؟(جنات کی حقیقت)۔
میں نے خود آج سے کئی سال پہلے ایک بندہ دیکھا تھا جس کے پاؤں اُلٹے تھے تو کیا میں نے جن دیکھا تھا؟ (جنات کی حقیقت)۔علاوہ ازیں لوگوں کی کچھ اس طرح کی باتیں اکثر ہم نے سنیں ہونگی۔ میں نے ایک عجیب و غریب آواز سنی، ایک شبہی سی دیکھی۔
میں نے اندھیرے میں سفید چیز دیکھی۔مجھے دن کے وقت کوئی کالی سی چیز دیکھی۔میں نے ایک بہت لمبا بندا دیکھا جو بالکل جن کی طرح تھا، عجیب و غریب سا، اُس کے لمبے لمبے دانت تھے وغیر ہ وغیرہ۔ایک تصور یہ بھی ہے کہ جنات ایک مخلوق سے دوسری مخلوق میں تبدیل ہو جاتے ہیں، ایک مخلوق سے دوسری مخلوق میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
جعفر جن (جنات کی حقیقت)
میرے ایک انکل اکثر کہا کرتے تھے کہ ساڈے موچی دروازے اچ اک جافر جن ہوندا سی جدے بچے (چھلیڈے)تالاب وچ ناندے سن ۔کچھ لوگ ان کو ہوائی مخلوق کا نام دیتے ہیں۔ اسی طرح جنات اور چڑیلوں کے بارے ہمارے اذہان میں کئی قسم کے تصورات قائم ہیں (جنات کی حقیقت)۔
تحقیق کا فقدان یا رب کائنات کی مرضی
ہم نے کبھی شاید تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی اس لئے ہمیں تاحال علم نہیں ہے کہ جن اور چڑیل اصل میں کس قسم کی مخلوق ہیں۔یا ہو سکتا ہے باری تعالیٰ کی ذات چاہتی ہو کہ ہمیں پتہ نہ لگے اور یہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔مگر یقین تو ہم کرتے ہیں کیونکہ رب کی کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔اس لئے ہم سب کا ایمان ہے۔سب سے بڑھ کر اس نام سے رب کی کتا ب میں ایک سورت بھی موجود ہے۔
جنات اور میرا بچپن
میں نے بھی اپنے بچپن میں لوگوں کی زبانی بہت سے کہانیاں سُن رکھی تھیں۔میرے ایک کزن ایک بہت خوفنا ک ماسک پہن کر مجھے ڈراتے تھے (جنات کی حقیقت)۔تب سے ہی میرے دل میں بہت ڈر بیٹھ گیا تھا۔اوپر سے رہی سہی کسر ہورر فلموں جیسا کہ ایول ڈیڈ اور ڈراکولا نے پوری کر دی تھی۔
میں اکیلا کمرے میں بیٹھ نہیں سکتا تھا۔کوئی جن بھوتوں کی باتیں کرتا تھا تو میری ٹانگیں کانپتی تھیں۔ہماری جوائنٹ فیملی تھی اس لئے کبھی اکیلا رہنا عذاب کا باعث ہوجایا کر تا تھا۔خاص طور پر رات کے وقت تو زیادہ خوف آتا تھا۔میں پھل پھول رہا تھا اور یہ خوف بھی شانہ بشانہ ود چڑھ رہا تھا۔
خواہش تھی کہ میرے دل سے یہ ڈر اور خوف نکل جائے جو لوگوں اور ماحول کی وجہ سے میں نے پال رکھا ہے۔ میرے ارد گر د کے لوگ میرے دوست، میرے کزن وغیرہ بالکل میری طرح نہ تھے۔ وہ سب اتنا نہیں ڈرتے تھے جتنا کہ میں۔
لہٰذا یہ میری زندگی کا بہت اہم مسئلہ تھا جو حل نہ ہو پار ہا تھا۔میں کُھل کر اس مسئلہ پہ کسی سے بات بھی نہ کر پاتا۔متذکرہ بالا خوف کی وجہ سے میرے دل میں لوگوں کا خوف بھی بہت زیادہ تھا۔خصوصاً اُستادوں اور مینٹرز کا۔
جوانی کی عبادت و ریاضت کے باعث اپنے ڈر پر قابو پانے کی مشق
کم و بیش تیرہ سال پہلے کی بات ہے۔میں نمازوں کی طرف بہت زیادہ مائل ہو گیا تھا۔پابندی کے ساتھ نمازیں پڑھا کرتا تھا۔یہاں تک کہ کبھی کبھی تہجد کا شرف بھی نصیب ہوا کر تا تھا۔
( جنات کی حقیقت )زندگی بہت پُر سکون ہو گئی تھی۔ارد گرد کچھ بھی چل رہا ہومیرا رحجان صرف نمازوں اورباری تعالیٰ کی کتا ب کی طرف تھا۔تسبیح بھی بہت زیادہ کیا کر تا تھا۔مکمل ہونے کا احساس پیدا ہوتا تھا۔اُن دنوں میں اپنے اندر کافی روحانیت محسوس کر رہا تھا۔
میں کچھ خاص قسم کے تجربات خود بخود کرنا شروع ہو گیا تھا تاکہ میرے اندر جنوں بھوتوں کا جو خوف بیٹھا ہوا ہے جس سے میں بلاوجہ ڈرتا ہوں ختم ہو جائے۔عشاء کی نماز کے بعد رات دس بجے گھرکی چھت پر جانے کی مشق شروع کی۔ہماری چھت پر ایک سٹور تھا بہت ڈراؤنا سا۔اور ہمارے بڑے اکثر کہتے تھے اے بڑا پاری اے بھئی بھاری کیسے تھا کیا کسی نے اُٹھا کر دیکھا تھا۔
خیربڑوں کی بڑے ہی جانیں۔بہر کیف میں پہلے دن گھر کی چھت پر آیا کچھ دیر چہل قدمی کی پھر نیچے چلا گیا۔ اگلے روز دوبارہ اوپر آیا اور کچھ چھت پر زیادہ قیام کیا۔ اسی طرح یہ مشق روز کرتا رہا اور وقت کو بڑھاتا رہا ۔اب میں رات کے وقت باآسانی چھت پہ مدتوں وقت گزار لیا کرتا۔کبھی کبھی عشاء کی نماز کے بعد رکعتیں چھت پر پڑھ لیا کرتا۔
گھر کے قریب ایک پارک میں گھنا خوفنا ک درخت
ہمارے محلے میں مسرت پراچہ سکول کے پاس ایک پارک تھا جس میں ایک بہت گھنا درخت تھا۔لوگ کہتے تھے اُس درخت پر ضرور کوئی سایہ ہے کیونکہ وہاں لوگوں کے ساتھ عجیب و غریب واقعات ہوئے تھے۔
لہٰذا میرے دل میں آیا کہ فرحان بات تو تب ہے کہ رات کو عشاء کی نماز کے بعد تو اُس درخت کے نیچے سے گزرے تاکہ تیرے خوف میں مزید کمی آجائے اور تجربہ کا تجربہ سہی (جنات کی حقیقت)۔ آخر کار میں نےاپنی ذات کو راضی کر لیا۔اگلے روز بعد نماز عشاء اُس درخت کی طرف مارچ شروع کیا۔
میں کافی پُر اعتماد تھا۔مجھے لگنا شروع ہوگیا تھا کہ یہ سب من گھڑت کہانیا ں ہیں۔وہاں مکمل سناٹا تھا۔جب میں پارک کے قریب پہنچا تو وہاں دوسری جانب کچھ کتے گشت کر رہے تھے۔مجھ پہ تھوڑا خوف طاری ہوا کہ کہیں میری جانب ہی نہ آجائیں۔خیروہ خوش قسمتی سے ادھر اُدھر ہو گئے۔
لیکن میں نے محسوس کیا کہ کتوں کی وجہ سے میری خود اعتمادی اور حوصلے میں کچھ کمی واقع ضرور ہوگئی تھی۔خیر سفر جاری رکھا۔اب میں درخت کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔ درخت کے بالکل نیچے آتے ہی محسوس ہوا جیسے میرے پیچھے کوئی آرہا تھا۔
اس کے بعد میں نے اپنے آگے ایک سایہ دیکھا جو تقریباً اُس درخت جتنا لمبا تھا ۔ پھر کیا ہوا نہ پوچھیں۔یہ ضرور وہی سایہ ہے۔اتنا لمبا او ر قدآور جن، میں نے دل میں کہا۔ دل کی دھڑکن حد سے زیادہ بڑھ رہی تھی۔میں آگے چلے جاتا وہ میرا پیچھا کیے جاتا ۔
مجھے زمین پہ اُ س کا سایہ صاف دکھائی د ے رہا تھا۔مجھے یقین ہوگیا بھائی آج تو گئے۔میں نے آیت الکرسی پڑھنا شروع کر دی( جنات کی حقیقت)۔شاید میرا آج آخری دن ہے، یہ تو مجھے کھا جائے گا یا مارد ے گے، میں نے دل میں کہا۔خوف بڑھتا چلا جا رہا تھا۔پسینے ٹپک رہے تھے اور وہ میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔
میں نے کلمہ پڑھنا بھی شروع کر دیاتھا۔ آگے کیا ہوا۔ وہ سایہ آہستہ آہستہ چھوٹا ہونے لگا۔مجھے لگا شاید وہ مخلوق وہ سایہ چھلیڈ ے میں تبدیل ہورہا ہے۔وہ چھوٹا ہوتا گیا،ہوتا گیا اوراب مجھے اپنا سایہ دکھنا شروع ہوگیا۔جی ہاں!میں ہی تھا، میرا اپنا ہی سایہ تھا جس نے میرے چھکے چُھڑا دیے ۔
عین ممکن ہے لوگوں کے ساتھ اکژ اس جگہ سے گزرے وقت اسی نوعیت کی واردات ہوتی ہو ۔ شاید لوگ دوران واردات وہاں سے بھاگ جاتے ہوں اور ذرا دور جاکر سمجھتے ہوں کہ وہ لمبے جن سے بال بال بچےمگر وہ لمبا جن ساری عمر کے لئے اُن کے دماغ میں رہ جا تاہو ۔
اسی وجہ سے بعدازاں وہ ادھر اُدھر کہانیاں سُناتے پھرتے ہیں۔دوران واردات ایک کام مجھ سے غیرارادی طور پر ہوا۔ سایہ دیکھ کر میں وہاں سے بھاگا نہیں بلکہ میں خوف میں تیز تیز چلتا رہا۔ یہ سب کچھ شاید میرا مالک چاہتا تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ میں مشاہدہ کروں تاکہ ڈر اور خوف جو بچپن سے میرے دل و دماغ میں بیٹھا تھا سےچھٹکارا حاصل کروں۔
تجزیہ
مندرجہ بالا حالات و واقعات سے جو میں نے اخذ کیا ہے وہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ میری نظر میں جنات سو فیصد وجود رکھتے ہیں۔مگر اُس طرح نہیں جس طرح ہم سوچتے ہیں۔ہمارے حصے میں شاید علم ہی بہت تھوڑ ا آیا ہے۔
باقی ساری باتیں بچپن میں سُن سُن کر ہمارے سب کونشیئس دماغ میں بیٹھ جاتی ہیں اور رہی سہی کسر ہورر فلمیں دیکھ کر پوری ہوجاتی ہیں۔ہمیں دن کے وقت کیوں خوف نہیں آتا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اندھیرے میں خوف ہوتا ہے۔مگر میرا ایسا ماننا نہیں۔
میرے مطابق اندھیرے سےڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم روشنی میں زیادہ رہتے ہیں اس لئے ہمیں روشنی پسند ہے، ہم روشنی سے زیادہ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ایک شخص جو کسی جنگل میں رہتا ہے جہاں کوئی روشنی نہیں اُسے بھلا اندھیرے کا کیا خوف۔
اگر وہ شہر میں آکررہے جہاں روشنی ہی روشنی ہے تو شاید وہ عجیب سا محسوس کرے گا کیونکہ اُس کی روشنی سے زیادہ دوستی نہیں ۔لہٰذا اردگرد کے ماحول سے کہانیاں سُن کر ، فلمیں دیکھ کر ہمارا یقین کامل ہوجاتا ہے( جنات کی حقیقت)۔
اندھیرے میں زیادہ ڈرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جتنی بھی کہانیاں ہم سُنتے ہیں اُن میں بیان کردہ وقت رات کا ہوتا ہے اور ڈراونی فلموں میں بھی جن بھوت رات کے وقت نمودار ہوتے ہیں۔
بہرکیف ہم سب نے اپنے اپنے جن بھوت بنا رکھے ہیں۔ میرے دل سے درج بالا واقعے کے بعد ڈر اور خوف بالکل ختم ہو گیا تھا ۔ میں اندھیرے میں ، اکیلے میں ، ڈراونی فلم دیکھ کر ڈرتا اور نہ ہی خوف کھاتا ۔ وہ ڈرپوک فرحان شاید میں پیچھے کہیں چھوڑ آیا تھا ۔
آج کل رات کو اندھیرے میں کسی ویرانی جگہ سے گز رتے ہوئے زیادہ خوف اس بات کا لاحق ہو تا ہے کہ کہیں ڈاکو موبائل ہی نہ چوری کرلیں ۔میں نے اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کیا ہے اور اُمید کرتا ہوں کہ میرا تجربہ آپ کے لیے سود مند ثابت ہو جس سے آپ مثبت سبق اور معنی اخذ کریں۔
فرحان بٹ (گزیٹڈ افسر حکومت پنجاب)