اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

 کا کے کا فیورٹ بچہ
میں ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتا ہوں کہ والدین کے بعد کاکا مجھے سب سے زیادہ پیار کر تا تھا۔میرا سونا، میرا ہیرو، ہے کوئی پورے خاندان میں ایسا بچہ، یہ الفاظ اکثر کاکے کی زبان پر میرے لئے ہوتے۔مجھے اکثر بوسہ کرتا، میری ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا۔وہ کراچی میں رہا کرتا تھا اور جب بھی ہم سے    ملنے لاہور آتا تو میں بہت پُر جوش ہو جایا کرتا تھا کیونکہ وہ ایک واحد شخص تھا جو مجھے کبھی تنقید نہ کر تا۔کاکے کی میرے دل میں ایک علیٰحدہ جگہ اورایک منفرد مقام تھا۔


کاکے کا کرکٹنگ ٹیلنٹ
زیادہ تر تیز گیند باز لمبے قد کے مالک ہوتے ہیں۔چھوٹے یا میانہ قد کے تیز گیند باز شاذونادر پیدا ہوتے ہیں۔کاکے کا قد پانچ فٹ پانچ انچ تھا مگر رب نے اُس کو ایک تیز گیند باز بنا کر دنیا میں بھیجا تھا۔زبر دست ہائی آرم ایکشن، گیند بازی کرتے کاکے کو دیکھو تو عظیم تیز گیند باز عمران خان کی یاددلاتا۔علاوہ ازیں کاکا جی ہارڈ ہٹنگ بیٹسمین بھی تھے۔یعنی کاکا ایک با صلاحیت آل راؤنڈ کر کٹر تھا۔اُس نے بہت اچھی سطح پر کرکٹ کھیلی مگر بد قسمتی سے بین الاقوامی سطح پر کرکٹ نہ کھیل سکا۔خاندان میں کئی بچوں کو کرکٹ کھیلنا سیکھائی۔مجھے جب لاہور میں پہلی بار گیند بازی کرتے ہوئے دیکھا تو افسردہ ہوگیا۔وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ یار تو جتنی اچھی گیندیں نکال رہا ہے، کاش تو کراچی میرے پاس ہوتا تو میں تیری اچھی تربیت کرتا۔کاکے کی دلی خواہش تھی کہ خاندان کا کوئی بچہ ضرور بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کھیلے۔


ستائیس بر س قبل کاکے کی شادی
ستائیس بر س قبل ہمارا لاہور سے کراچی بذریعہ ریل گاڑی کاکے کی شادی پر جانا ہوا تھا۔میں صرف دس برس کا تھا مگر شادی کے تمام مناظر مجھے روزے روشن کی طرح یا د ہیں۔سحرا بندی کے وقت کاکا کیا حسین دِکھائی دے رہا تھا۔سُرخ سفید رنگت، تھوڑے لمبے ہلکے بھورے خم دار بال، مر دانہ نین نقش، چشم بدور۔ہم خیر خیریت سے کاکے کی دُلہن گھر لے آئے۔اگلے روز میں کاکے کے کمرے میں بیٹھا تھا، دائیں جانب سے کاکا میری طرف لپکا اور مجھے بوسہ دے کر اپنی دُلہن سے کہا ہے کوئی اتنا کیوٹ بچہ جس پر کاکے کی دُلہن بائیں جانب سے میری طرف لپکی اور مجھے گال پر بوسہ دیتے ہوئے بولی کوئی نہیں ہے اتنا کیوٹ بچہ۔میری نظر جھکی ہوئی تھی اور میں شرما رہا تھا۔کیا لمحہ تھا 


ستائیس سال بعد کاکے کی وفات اور میرا پہلا ہوائی سفر
پچیس مئی،2021بروز منگل رات 10بجے اطلاع ملی کہ کاکے کا اچانک انتقال ہوگیا ہے۔کچھ دیر تو مجھے ہوش نہ رہی۔میں کچھ عجیب و غریب دماغی حالت میں چلا گیا۔وہی کاکا، میرا کاکا، رحم دل کاکا، مجھے بے حد پیار کرنے والا کاکادنیا سے چلا گیا۔امی اور خالہ کی حالت تو انتہا درجہ کی غیر ہوگئی۔اُن کی عمر اور صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے عابد بھائی (میرے کزن برادر) اور میں نے بذریعہ ہوائی جہاز کراچی جانے کا فیصلہ کیا اور فوری ایئر بلیو کی دو ٹکٹس بُک کروائیں۔امی نے بتایا کہ 1985میں نانا ابو کے انتقال پر میں اُن کے ساتھ ہوائی جہاز پر کراچی گیا تھا۔وہ وقت مجھے ذرا بھی یا د نہیں کیونکہ اُس وقت میں صرف دو سال کا تھا۔لہٰذا مورخہ 26.05.2021کی صبح میں نے ہوش و حواس میں اپنی زندگی کا پہلا ہوائی سفر کیا۔


عابد بھائی اور میں بورڈنگ کے بعد جہاز میں داخل ہوئے، ہمیں ایک ایک چھوٹی منرل واٹر کی بوتل دی گئی اور ہم اپنی اپنی نشت پر براجمان ہوگئے۔کچھ دیر تو یوں لگا جیسے ڈائیوو بس میں سوار ہیں مگر جب ار د گر د ایئر ہوسٹس کو گھومتے پھرتے دیکھا تو محسو س ہوا کہ کسی مختلف اور نئی جگہ پر موجود ہیں۔میں نے نوٹ کیا کہ اردگرد بیٹھے ہوئے کچھ لوگ مجھے عجیب وغریب ڈھنگ سے دیکھ رہے تھے۔میں کوئی سیلبرٹی تو نہیں، مشہور زمانہ انسان تو نہیں، مجھے کیوں دیکھ رہے ہیں، میں نے دل میں سوچا۔غور کیا تو بات سمجھ آگئی۔چونکہ میں جہاز میں پہلی بار بیٹھنے کی وجہ سے نروس تھا جو میرے چہرے سے واضح تھا اور ارد گر د بیٹھے لوگ بھی یہ محسوس کر رہے تھے۔میں خود بھی جہاز میں بیٹھ کر پینڈ و پینڈو محسوس کر رہا تھا۔بہر کیف جہاز نے رن وے پر بھاگنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ رفتا ر پکڑتا گیا اور آخر کا ر اُڑ گیا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جیسے ہی جہاز نے اُڑان پکڑی میرے دل میں عجیب سا ہوکا اُٹھا اور جو جہاز میں پہلے سفر کرچکے ہیں وہ سمجھ گئے ہونگے کہ میں کیا بات کہہ رہا ہوں۔کچھ دیر بعد ایسے لگا کہ جہاز ہوا میں ساکت ہو گیا ہے۔اچانک سے کانوں میں ہوا گئی یاکانوں سے باہر نکلی اور کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں۔میں نے اس احساس کو نظر انداز کیا کیونکہ اس کے بارے میں مجھے پہلے سے جانکاری تھی۔بعدازاں کچھ ہلکے ہلکے جھٹکے محسوس ہوئے جو آہستہ آہستہ شدت اختیار کرتے گئے۔کہیں کوئی گڑ بڑ تو نہیں، دل میں سوچا۔عابد بھائی کی جانب دیکھا تو وہ چِل کر رہے تھے مجھے کچھ تسلی ہوئی کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ پھر بھی مکمل دلی تسلی کے لئے عابد بھائی سے دریافت کرنے پراُنھوں نے بتایا کہ جہاز بہت زیادہ بلندی پر ہے اور بادلوں کے ساتھ ٹکرانے کی وجہ سے جھٹکے لگتے ہیں۔جہاز کے کھانے کے چرچے بہت سُنے تھے۔تقریباً سب کا کہنا تھا کہ جہاز کا کھانا کسی کام کا نہ ہوتا ہے۔اس لئے میں جہاز کا کھانا کھا کر خود تجربہ کرنا چاہتا تھا۔یہاں تذکرہ کرتا چلوں کہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ زیادہ بلندی پر انسان کی سونگھنے اور چکھنے  کی حس کم ہوجاتی ہے اس لئے جہاز کا کھانہ ذائقہ دا ر محسوس نہیں ہو پاتا۔مگر افسوس کے جہاز کی کسی پالیسی کی وجہ سے کووڈ سے بچاؤ کے لئے کھانے پر پابند ی کے باعث ہمیں کھانا نہ نہ دیا گیا۔پہلا ہوائی سفر اور کھانا نہ ملا، بیٹر لک نیکسٹ ٹائم، فرحان، میں نے دل میں خود سے کہا۔خیرپہلا ہوائی جہاز کا سفر خیرو عافیت سے طے پایا اور ہم بحفاظت کراچی ایئر پورٹ پہنچ گئے۔


تدفین اور کاکے کے بچوں سے ملاقات

کاکے کی تدفین کے بعد اُس کے گھر میں کچھ دیر قیام کیا۔ کاکے کے ایک لڑکے اور کاکے کی بیوی سے میں پہلے مل چکا تھا مگر ایک لڑکے اور دو لڑکیوں سےپہلی بار ملاقات ہو رہی تھی۔کاکے کے بچے بہت خوبصور ت تھے۔بچے باپ کی وفات سے ٹوٹ گئے تھے۔وہ ظاہر تو نہیں کر رہے تھے مگر دُکھ اور کاکے کی موت کا صدمہ اُن کے چہروں پر صاف دِکھائی دے رہا تھا۔ وفات سے قبل کاکے کے مالی حالات بہت خراب  تھے مگر اُس نے کسی سے تذکرہ  کیا اور نہ ہی مدد مانگی۔   


کاکا اور کوئی نہیں میرے ماموں تھے۔ جن کا نام محی الدین عرف کاکا تھا۔وہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور لاڈلے تھے مگر افسوس کہ سب سے پہلے دنیا سے  رخصت ہوئے۔اُن کی عمر پچاس سے کچھ زیادہ تھی۔  رشتے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ہمیں اِن کی قدر کرنی چاہیئے۔اور ایک دوسرے سے رابطہ رکھنا چاہیئے تاکہ ایک دوسرے کے حالات کے بارے میں گاہے بگاہے پتا چلتا رہےاور ایک دوسرے کی ہر قسم کی زیادہ سے  زیادہ مدد ہوسکے ۔   لاہور واپسی کے لئے کراچی ریلوے اسٹیشن بذریعہ رکشہ جاتے ہوئے میری  ارد گرد سُنسان سڑکوں پر نظر پڑی تو دل نے کہا

بچھڑا کچھ اس اداسے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
تمام پڑھنے والوں سے میرے مرحوم ماموں کے لئے دعائے مغفرت کی پُر زور اپیل ہے۔

فرحان بٹ (گزیٹڈ افسر حکومت پنجاب)
lbuttfarhan786@gmail.com

اپنا تبصرہ بھیجیں